میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو محفلیں منعقد کی جاتی ہیں خواہ یوم ولادت کے موقع پر ہو یا عام دنوں میں یا کسی خوشی وغمی کے موقع پر اسکا کیا حکم شرعی ہے ؟ اگر دیکھا جائے تو وہ ایک عام وعظ و نصیحت اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل ہوتی ہے جو علماء دیوبند کے یہاں بھی رائج ہے یعنی بلفظ دیگر یوں کہا جائے کہ ایک ہی چیز اگر دیوبندی کرے تو جائز اور بریلوی کرے تو بدعت اس فرق کی وضاحت مطلوب ہے اگر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل جائز ہے تو کسی قسم کے کلام کی گنجائش ہی نہیں ہے اور اگر ناجائز ہے تو اس کے ناجائز ہونے کے وجوہات بالتفصیل مع الدلائل مطلوب ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کا ذکر یا آپ کے اوصاف ومحاسن اور عبادات ومعاملات کا ذکرحتی کہ جس چیز کی ادنیٰ نسبت بھی نبی کریم ﷺکی جانب ہو اس کا ذکر یقیناً فعلِ مستحسن اور باعثِ اجروثواب ہے، یقیناً آپ ﷺ کی دنیا میں آمد دنیا کے لیے ایک نعمت ہے، اندھیروں میں ایک روشنی ہے، ایک مسلمان کا خوش ہونا فطری امر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں، البتہ اس پر خوش ہونے کا وہی طریقہ اختیار کرنا جائز ہے جو محسنِ کائنات ﷺ سے ثابت ہو، یا صحابہ وتابعین نے اس پر عمل کیا ہو، یہی آپ ﷺ کی آمد کے مقصد کی حقیقی پیروی ہے، چوں کہ مروجہ میلاد کا ثبوت قرآن وحدیث اور صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین میں سے کسی سے نہیں ہے، بلکہ یہ ساری چیزیں بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ ہیں،اور بدعات میں شامل ہیں، لہذا ان کا ترک کرنالازم ہے۔
’’بدعت‘‘ اس عمل کو کہا جاتاہے جسے نیک کام سمجھ کر کیا جائے، اس کا التزام ہو، اس کے نہ کرنے پر نکیر ہو، اور وہ ایسا عمل ہو کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعینِ کرام اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے زمانے میں اس عمل کی ضرورت ہونے کے باوجود وہ اس پر عمل نہ کریں، یا اس طرح عمل نہ کریں جس کیفیت کے ساتھ اِس دور میں لازم سمجھا جارہاہے۔
اب دیکھیے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو ہم سے بہت سے زیادہ نیکیوں کے حریص، ہم سے زیادہ عبادات کا شوق رکھنے والے اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کے عاشقِ صادق تھے، انہوں نے اس عمل کو اختیار نہیں کیا، جب کہ انہیں ہم سے زیادہ اس کی ضرورت تھی، اور وہ چاہتے تو یہ کرسکتے تھے، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ سے یہ نہیں سیکھا، حال آں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورِ اکرم ﷺ کا مزاج سمجھتے تھے، اس لیے عشق ومحبت کے باوجود انہوں نے ایسا عمل نہیں کیا جو حضور ﷺ کو ناپسند ہو، اور حقیقی محبت یہی ہے کہ جس میں محبوب کی راحت رسانی ہو، یہ کمالِ محبت نہیں کہ آدمی اپنی چاہت پوری کرکے محبوب کو تکلیف پہنچائے اور پھر اسے اپنی محبت کا تقاضا کہے۔
لہذا مروجہ میلاد کی مجالس کا کیوں کہ خاص کیفیات کے ساتھ التزام کیا جاتاہے، اور نہ کرنے والوں کو برا کہا جاتاہے، اس لیے ان کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
ولادت کی خوشی میں یوں کرنا چاہیے کہ آپ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے کا عزم کرلیں، یہ حقیقی محبت ہے، دن اور وقت متعین کیے بغیر آپ کی دنیا میں آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے شکرانہ کے نوافل ادا کرلیں، روزے رکھیں، کثرت سے انفرادی طور پر اخلاص کے ساتھ درود شریف پڑھ کر آپ کو اس کاثواب پہنچائیں، اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں ہی خوش ہوں گے۔
اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے شہیدِ اسلام حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’اختلافِ امت ا ور صراط مستقیم ،ص:86تا98‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ یا مذکورہ مضمون مندرجہ لنک سے بھی حاصل کرسکتے ہیں:
https://www.banuri.edu.pk/web/bayyinat-detail/عید-میلاد-النبی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن