بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عید کے دن نفل نمازکی ممانعت کا حکم شہر اوردیہات دونوں کے باشندوں کے لیے ہے؟


سوال

کیا عید کے دن صرف شہر والوں کے لیے نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے یا دیہات والوں کے بھی پڑھنا مکروہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک  کسی بھی قسم کی نفل نماز ادا کرنا ان جگہوں میں مطلقاً   (چاہےعیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہِ  تحریمی ہے جہاں عید کی نماز واجب ہے،اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک  صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے اور عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے۔ چوں کہ عید کی نماز  شہر  ، قصبہ  یا   قریہ کبیرہ   وغیرہ  جگہوں کے ساتھ خاص ہے  جہاں جمعہ و عیدین کی شرائط موجود ہوں ؛ اس لیے ایسے  دیہات جو قریہ صغیرہ ہیں ،جہاں جمعہ و عیدین کی شرائط نہیں ہیں ،وہاں کے لوگوں  کے لیے  اس وقت نوافل پڑھنا ممنوع نہیں ہے،لہٰذا  وہ عید کے دن    اشراق کے وقت کے بعد سے جب چاہیں ،جتنی  مقدار میں چاہیں نفل نماز پڑھ  سکتے ہیں، البتہ دیہات کےوہ لوگ دوسری بستی یا قریبی شہر میں جاکر نمازِ عید ادا کرنا چاہیں انہیں بہر حال  عید سے پہلے نوافل ادا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي ‌لأنه ‌اشتغال ‌بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة."

 (كتاب الصلاة، باب العيدين،167/2،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"ولا يتنفل قبلها مطلقاً... و كذا لا يتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علي الظاهر...الخ

 (قوله: وكذا لا يتنفل إلخ) لما في الكتب الستة عن ابن عباس رضي الله عنهما «أنه صلى الله عليه وسلم خرج فصلى بهم العيد لم يصل قبلها ولا بعدها» وهذا النفي بعدها محمول عليه في المصلى لما روى ابن ماجه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصلي قبل العيد شيئا فإذا رجع إلى منزله صلى ركعتين» " كذا في فتح القدير."

(كتاب الصلاة، باب العيدين، 169،70،71/2، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) ما قبل صلاة العيد يكره التطوع فيه؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يتطوع قبل العيدين مع شدة حرصه على الصلاة وعن علي رضي الله عنه أنه خرج إلى صلاة العيد فوجد الناس يصلون فقال: إنه لم يكن قبل العيد صلاة فقيل له: ألا تنهاهم فقال: لا فإني أخشى أن أدخل تحت قوله {أرأيت الذي ينهى} [العلق: 9] {عبدا إذا صلى} [العلق: 10] وعن عبد الله بن مسعود وحذيفة أنهما كانا ينهيان الناس عن الصلاة قبل العيد؛ ولأن المبادرة إلى صلاة العيد مسنونة، وفي ‌الاشتغال ‌بالتطوع تأخير.

ولو اشتغل بأداء التطوع في بيته يقع في وقت طلوع الشمس، وكلاهما مكروهان... وعامة أصحابنا على أنه لا يتطوع قبل صلاة العيد لا في المصلى ولا في بيته، فأول الصلاة في هذا اليوم صلاة العيد."

(كتاب الصلوة،فصل صلوة التطوع،297/1،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں