بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن معانقہ کا حکم


سوال

عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملنا کیسا ہے ( فرض، سنت، واجب، مستحب) اور اگر جائز ہے تو کتنی دفعہ ملنا چاہئے۔ اور اگر نہیں تو کیا ہمیں اس کو ترک کر دینا چاہیے۔ وضاحت طلب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اپنے مسلمان بھائی سے عام حالات میں ملاقات کے وقت گلے ملنا اور مصافحہ کرنا مسنون ہے، خواہ عید کا روز ہو یا کوئی اور، اس میں شرعاًکوئی حرج نہیں ؛ لیکن اپنی طرف سے مصافحہ اور معانقہ کو عید کے روز کے ساتھ یا عید کی نماز کے بعد لازم سمجھنا یہ صحیح نہیں ہے،اس کو ترک کردینا چاہیے ،البتہ زبانی طور پر "تقبل الله منا و منكم"سے مبارکباد دینا مستحب ہے،اور بلالزوم و بلا نیت ایک مرتبہ گلے ملے تو اس کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال، لأن الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - ما صافحوا بعد أداء الصلاة، ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولا ويعزر ثانيا ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع، إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات فحيث وضعها الشرع يضعها فينهى عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ"

(کتاب الحظر والاباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج:۶،ص:۳۸۱،سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"مسنون مصافحہ و معانقہ عید گاہ وغیرہ ہر جگہ جائز ہے ممنوع نہیں ہے اور جو مصافحہ اور معانقہ بدعت کی حد میں آتا ہے وہ ہر جگہ ممنوع ہے ،عید گاہ اور مسجد کی قید نہیں ہے ،مصافحہ بر وقت ملاقات مسنون ہے ،عید کی مبارک بادی زبان سے دینا مستحب ہے (تقبل اللہ منا ومنکم ،ان الفاظ سے مبارک باد دی جائے)اس کے لیے مصافحہ شرط نہیں ،اور چوں کہ یہ روافض کا طریقہ ہے اس لیے بھی احتراز کرنا چاہیے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:۱۰،ص:۱۲۵،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں