بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کی نماز سے پہلے وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

عید کے نماز سے پہلے وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے یا نہیں؟  دلیل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں !

جواب

واضح رہے کہ عیدین کی نماز میں  مسلمانوں کا ایک بڑا اجتماع ہوتا ہے ،یہ  لوگوں تک دینی احکامات پہنچانے کا ایک بہترین موقع ہوتا ہے ، اس لیے ہمارے یہاں نماز  سے قبل مقامی زبان میں وعظ  و نصیحت کا معمول بنایا گیا؛ تاکہ  اللہ کے احکامات اس کے بندوں تک پہنچانے کے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاسکے ،  لہذا صورت مسئولہ  عیدین کی نماز کا جزء  سمجھے بغیر عیدین سے پہلے وعظ و نصیحت کی جائے   تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌بلغوا ‌عني ‌ولو ‌آية وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج ومن كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار."

(كتاب العلم،‌‌الفصل الأول،ج:1،ص:70،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

المفاتيح في شرح المصابيح میں ہے:

"قوله: "بلغوا عني"، (بلغوا): أمر المخاطبين، من التبليغ، وهو إيصال الخبر إلى أحد، (الآية) لها معان كثيرة، ومعناها ها هنا: كل كلام مفيد، نحو قوله: "من صمت نجا" و"‌الدين ‌النصيحة.يعني: بلغوا عني أحاديثي إلى أمتي ولو كان قليلا، وهذا تحريض على نشر العلم وتعليم الناس العلم وأحكام الدين ونشر الحديث."

(كتاب العلم،ج:1،ص:297،ط:وزارة الأوقاف الكويتية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں