بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کی نماز میں ایک رکعت نکل جائے


سوال

اگر کوئی عید کی نماز پڑھنے جائے اور اس کو دوسری رکعت ملے تو اس کی نماز ہوگئی یا گھر جاکر دوبارہ اپنے طور پر عید کی نماز پڑھنی چاہیے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ کوئی شخص عید کی نماز میں دوسری رکعت میں پہنچے  تو وہ امام کے سلام کے بعد کھڑے ہوکر پہلے ثناء، اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع کرے، اور بقیہ نماز پوری کرے۔ دوبارہ نماز دہرانے کی ضرورت نہیں۔ نیز اگر کسی کی تنہا عید کی نماز رہ جائے تو گھر میں انفرادی طور پر عید کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، عید کی نماز کے لیے جماعت شرط ہے۔

الدر:

’’ولو سبق بركعة يقرأ ثم يكبر لئلايتوالي التكبير‘‘.

الرد:

’’(قوله: لئلا يتوالي التكبير) أي لأنه إذا كبر قبل القراءة وقد كبر مع الإمام بعد القراءة لزم توالي التكبيرات في الركعتين، قال في البحر: ولم يقل به أحد من الصحابة، ولو بدأ بالقراءة يصير فعله موافقًا لقول علي -رضي الله عنه- فكان أولى، كذا في المحيط‘‘.

(فتاوی شامی،۲/۱۷۴، سعید)

’’أما لو أدركه راكعًا فإن غلب ظنه إدراكه في الركوع كبر قائمًا برأي نفسه ثم ركع، وإلا ركع وكبر في ركوعه خلافًا لأبي يوسف ولايرفع يديه؛ لأن الوضع على الركبتين سنة في محله، والرفع لا في محله وإن رفع الإمام رأسه سقط عنه ما بقي من التكبير لئلاتفوته المتابعة، ولو أدركه في قيام الركوع لايقضيها فيه؛ لأنه يقضي الركعة مع تكبيراتها‘‘.

 (فتاوی شامی، ۲/۱۷۴، سعید)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں