بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیدین کی نماز کے لیے خطبہ اور جماعت کا حکم


سوال

آپ کا فتوی لاک ڈاؤون کی صورت میں عید کی نماز گھر پہ پڑھنے کی کیفیت کا موصول ہوا، الحمدللہ کافی فائدہ ہوا اس فتوی سے اور بہت سارے تردد بھی دور ہوئے، اب اسی عید کے نماز متعلق ایک دوسوالات ہیں، ممکن ہے  جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے:

1 عیدین کے خطبہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا بغیر خطبہ کے بھی عیدین کی نماز ہوسکتی ہے؟

2۔ اگر کہیں عیدین کی نماز کی شرائط (چار آدمی نہ ہوں، یا پڑھانے کسی کو نہ آتا ہو) کیا ایسی صورت میں عیدین کی نماز کے لیے کچھ متبادل نماز ہے؟ جسے فردا فردا پڑھ لیا جائے؟

جواب

1۔ عیدین کی نماز کے لیے خطبہ شرط نہیں ، سنتِ مؤکدہ ہے؛ لہذا بہتر یہ ہے کہ عیدین کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا جائے، لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے خطبہ نہیں پڑھا گیا تو عیدین کی نماز ادا ہوجائے گی۔

2۔ جمعہ اور عید کی نمازوں کے لیے جماعت کا ہونا شرط ہے، انفرادی طور پر جمعہ یا عید کی نماز ادا کرنا درست نہیں، جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، لیکن جمعہ اور عید کی جماعت کے لیے کتنے افراد ضروری ہیں؟ اس میں فرق ہے، جمعہ کی نماز درست ہونے کے لیے امام کے علاوہ تین مردوں کا ہونا ضروری ہے اور عید کی نماز کے لیے امام کے علاوہ ایک مرد کا ہونا کافی ہے۔

 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  (3 / 85):

"وأما شرائط وجوبها وجوازها فكل ما هو شرط وجوب الجمعة وجوازها فهو شرط وجوب صلاة العيدين وجوازها من الإمام والمصر والجماعة والوقت إلا الخطبة فإنها سنة بعد الصلاة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها".

و في الرد: "(قوله: فإنها سنة بعدها) بيان للفرق وهو أنها فيها سنة لا شرط وأنها بعدها لا قبلها بخلاف الجمعة. قال في البحر: حتى لو لم يخطب أصلاً صحّ وأساء؛ لترك السنة، ولو قدمها على الصلاة صحت وأساء ولاتعاد الصلاة".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (3 / 89):

"وأما الخطبة فليست بشرط؛ لأنها تؤدى بعد الصلاة وشرط الشيء يكون سابقًا عليه أو مقارنًا له، والدليل على أنها تؤدى بعد الصلاة ما روي عن ابن عمر أنه قال: { صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلف أبي بكر وعمر رضي الله عنهما وكانوا يبدءون بالصلاة قبل الخطبة}، وكذا روي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: { صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وخلف أبي بكر وعمر وعثمان فبدءوا بالصلاة قبل الخطبة ولم يؤذنوا ولم يقيموا} ولأنها وجبت لتعليم ما يجب إقامته يوم العيد والوعظ والتكبير فكان التأخير أولى ليكون الامتثال أقرب إلى زمان التعليم".

 النهر الفائق شرح كنز الدقائق  (1 / 373) ط: دار الكتب العلمية:

"نعم بقي أن يقال: من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام جماعة، فكيف يصح أن يقال: إن شروطه الجمعة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 166):

"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها".

و في الرد: "لكن اعترض ط ما ذكره المصنف بأن الجمعة من شرائطها الجماعة التي هي جمع والواحد هنا مع الإمام، كما في النهر".

الفقه على المذاهب الأربعة  (1 / 531):

"الحنفية قالوا: صلاة العيدين واجبة في الأصح على من تجب عليه الجمع بشرائطها سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحة إلا أنه يستثنى من شرائط الصحة الخطبة فإنها تكون قبل الصلاة في الجمعة وبعدها في العيد ويستثنى أيضًا عدد الجماعة فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام بخلاف الجمعة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں