بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید گاہ میں وسعت کے باوجود مسجدوں میں عید کی نماز کا حکم


سوال

 عید گاہ میں کثیر تعداد میں جگہ ہونے کے باوجود بھی کورونا کے بعد سے چھوٹی سے چھوٹی مسجدوں میں جمعہ اور عید کی نمازوں کا انعقاد ہونے لگا ہے، آمنے سامنے مسجد ہے پھر بھی دونوں میں جمعہ کی اور عید کی نماز ادا کی جاتی ہے، اس طرح مسجد در مسجد عیدین اور جمعہ کی نماز کا انعقاد کرانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عید کی نماز دین کے شعائر میں سے بنیادی شعار ہے، عید کی نماز سے مقصود مسلمانوں کی شان و شوکت اور قوت کا اظہار ہے، یہی وجہ ہے کہ عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان ایک جماعت میں شریک ہوسکیں، لہذا  عید گاہ میں گنجائش کے باوجود مسجدوں میں نماز عید ادا کرنے یابلاعذر عیدگاہ کو چھوڑ کر مسجدوں میں نمازِ عید ادا کرنے سے سنت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔البتہ  جن  علاقوں میں کوئی میدان یا عیدگاہ نہ ہو، یا کثرتِ آبادی اور رش کی وجہ سے عیدگاہ میں گنجائش نہ ہو تو پھر مسجدوں میں بھی ادا کرنا جائز ہے، ایسی صورت میں خلاف سنت بھی نہیں کہا جائے گا،غرض کہ بڑی مسجد میں جمعہ قائم کرنا اور عید گاہ میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال: حدثنا محمد بن جعفر، قال: أخبرني زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله بن أبي سرح ، عن أبي سعيد الخدري، قال: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى، فأول شيء يبدأ به الصلاة، ثم ينصرف، فيقوم مقابل الناس، والناس جلوس على صفوفهم فيعظهم، ويوصيهم، ويأمرهم، فإن كان يريد أن يقطع بعثا قطعه، أو يأمر بشيء أمر به، ثم ينصرف."

(باب الخروج إلى المصلى بغير منبر، ج: 2، صفحہ: 17، رقم الحدیث: 956، ط: دار طوق النجاة)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:  

"وفي الخلاصة والخانية: السنة أن يخرج الإمام إلى الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج: 2، صفحہ: 169، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات".

(الباب السابع عشر في صلاة العيدين، ج: 1، 150، ط: دارالفکر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي المغرب الجبانة المصلى العام في الصحراء، وعلى هذا فيجوز أن يكون منصوبا عطفا على يطعم؛ لأن التوجه إلى المصلى مندوب كما أفاده في التجنيس، وإن كانت صلاة العيد واجبة حتى لو صلى العيد في الجامع، ولم يتوجه إلى المصلى فقد ترك السنة، وإنما أتى بثم لإفادة أن التوجه متراخ عن جميع الأفعال السابقة."

(الخروج إلى الجبانة يوم العيد، ج: 2، صفحه: 171، ط: دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے: 

"وأما شرائط وجوبها وجوازها فكل ما هو شرط وجوب الجمعة وجوازها فهو شرط وجوب صلاة العيدين وجوازها من الإمام والمصر والجماعة والوقت إلا الخطبة فإنها سنة بعد الصلاة".

(کتاب الصلوۃ، فصل صلاۃ العیدین، شرائط وجوب وجواز صلاۃ العیدین، ج: 1، صفحه: 275، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں