بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن اہل خانہ پر کھانے پینے میں وسعت کرنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں:

کیا عید والے دن اپنے اہلِ خانہ پر کھانے پینے میں وسعت کرنا مستحب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خوشی کے بہت سے مواقع ایسے ہیں کہ جن میں کھانے وغیرہ میں وسعت کی باقاعدہ ترغیب دی گئی ہے،  جیسا کہ نکاح کا موقع ہے اور ولیمہ کا موقع اسی طرح بچہ کی پیدائش وغیرہ کا موقع کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مزاجِ شریعت یہی ہے کہ خوشی کے مواقع پر وسعت سے کام لینا چاہیے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عید کا موقع بھی چوں کہ خوشی کا موقع ہے اس دن بھی کھانے وغیرہ میں وسعت کرنا مستحسن اور پسندیدہ چیز ہے،  نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ: "بہترین صدقہ وہ ہے جو تم اپنے اہل وعیال پر کرو"؛ لہٰذا عید والے دن اپنے گھر والوں پر کھانے پینے میں وسعت کرنا مستحب ہوگا۔

لیکن واضح رہے کہ یہ وسعت اپنی استطاعت کی بقدر شرعی حدود میں رہ کر کرنی چاہیے یعنی اسراف اور نام ونمود وغیرہ سے بچا جائے۔ 

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے استاذ حضرت حماد رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ  پانچ  سو  اہلِ علم  افراد میں سے ہر ایک کو ایک ایک سو درہم عیدی دیا کرتے تھے۔

"سير أعلام النبلاء" ط الحديث (5/ 529):

"وقال أحمد بن عبد الله العجلي: ۔ ۔ ۔ وبلغنا أن حماداً كان ذا دنيا متسعة، وأنه كان يفطر في شهر رمضان خمس مائة إنسان، وأنه كان يعطيهم بعد العيد لكل واحد مائة درهم". 

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أولم على شيء من نسائه ما أولم على زينب، فإنه ذبح شاةً". (باب الوليمة، ج: 3، ص: 98، ط: دار الرسالة العالمية)

وفيه أيضًا:

"عن أنس بن مالك: أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى على عبد الرحمن بن عوف أثر صفرة، فقال: ما هذا؟ أو: مه فقال يا رسول الله إني تزوجت امرأة على وزن نواة من ذهب، فقال: بارك الله لك، أولم ولو بشاة". (باب الوليمة ج: 3، ص: 98 ط: دار الرسالة العالمية)

حدیث شریف میں ہے:

"وعن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنّ المسلم إذا أنفق على أهله نفقةً وهو يحتسبها كانت له صدقة". (الجامع الصحيح للسنن والمسانيد فضل الانفاق على الأهل، ج: 8، ص: 18)

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم يعودني وأنا بمكة وهو يكره أن يموت أحدنا بالأرض التي هاجر منها فقال: يرحم الله عز وجل ابن عفراء! قلت: يا رسول الله أوصي بمالي كله، قال: لا، قلت: فبالشطر، قال: لا، قلت: فبالثلث، قال: الثلث، والثلث كثير؛ إنك إن تدع ورثتك أغنياء خير من أن تدعهم عالةً يتكففون الناس في أيديهم، وإنك مهما أنفقت على أهلك من نفقة فإنها صدقة حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك". (سنن الكبرى للبيهقي، باب فضل النفقة على الأهل، ج: 4، ص: 467، ط: مكتبة دار الباز، مكة) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144105200893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں