بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن روزہ رکھنے اور قربانی کے گوشت سے افطار کرنے کا حکم


سوال

لوگ عید کے دن روزہ رکھتے ہیں اور قربانی کے جانور کے  گوشت سے افطار کرتے ہیں،  کیا یہ واقعی مستحب ہے؟ اگر ہے تو کوئی حدیث یا حوالہ دے دیں!

جواب

عید الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،البتہ عید الاضحی کے دن جس شخص نے قربانی کرنی ہوتی ہے، اس کے لیے اپنی قربانی کے گوشت سے کھانے کی ابتدا کرنا اور اس سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے،  یہی حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ سے  بھی ثابت ہے،  اسی پر لوگ عمل کی کوشش کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے قربانی نہیں کرنی، ان کے لیے بھی کھانے کی ابتدا کسی کی بھی قربانی کے گوشت سے کرنا افضل اور بہتر ہے، کیوں کہ عید الاضحیٰ کا دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے ، لہٰذا مستحب یہ ہے کہ ہر شخص اس دن کھانے کی ابتدا  اللہ تعالیٰ کی ضیافت کے کھانے (یعنی قربانی کے گوشت) سے کرے، اسی عمل کو بعض لوگ روزہ رکھنا سمجھ لیتے ہیں، حال آں کہ اس عمل کو روزہ کہنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ روزہ تو صبح صادق سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور کی کلیجی سے کھانے کا آغاز فرماتے تھے، اگر اتباع کی نیت سے کوئی اس پر عمل کرے تو ثواب کی امید ہے، تاہم یہ ضروری نہیں ہے، قربانی کا کوئی بھی گوشت کھالیا جائے، استحباب پورا ہوجائے گا۔

 السنن الکبری للبیهقي:

"عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا، وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه".

(السنن الكبرى للبيهقي، كتاب صلاة العيدين، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع: ٣/ ۴۰١)

ترجمہ :حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور میں سے ابتدا کلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 123):

"قال الزيلعي في الأكل يوم الأضحى قبل الصلاة: المختار أنه ليس بمكروه، و لكن يستحب أن لايأكل. و قال في البحر هناك: و لايلزم من ترك المستحب ثبوت الكراهة، إذ لا بد لها من دليل خاص."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 176):

"(ويندب تأخير أكله عنها) وإن لم يصح في الأصح.

(قوله: و يندب تأخير أكله عنهما) أي يندب الإمساك عما يفطر الصائم من صبحه إلى أن يصلي فإن الأخبار عن الصحابة تواترت في منع الصبيان عن الأكل و الأطفال عن الرضاع غداة الأضحى، قهستاني عن الزاهدي ط (قوله: و إن لم يضح) شمل المصري والقروي وقيده في غاية البيان بالمصري وذكر أن القروي يذوق من الصبح؛ لأن الأضاحي تذبح في القرى من الصباح بحر (قوله: في الأصح) وقيل: لايستحب التأخير في حق من لم يضح، بحر.

الفتاوى الهندية (1/ 150):

"والأضحى كالفطر فيها إلا أنه يترك الأكل حتى يصلي العيد، كذا في القنية.

وفي الكبرى: الأكل قبل الصلاة يوم الأضحى هل هو مكروه؟ فيه روايتان والمختار أنه لا يكره لكن يستحب له أن لايفعل، كذا في التتارخانية، و يستحب أن يكون أول تناولهم من لحوم الأضاحي التي هي ضيافة الله، كذا في العيني شرح الهداية."

الموسوعة الفقهیة الکوتیة میں ہے:

"فمن كانت له أضحية، فقد اتفق الفقهاء على أنه يسنّ له تأخير الفطر يوم النحر، والإمساك عن الأكل ليفطر على كبد أضحيته؛ لما ورد عن بريدة -رضي الله تعالى عنه- قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لايخرج يوم الفطر حتى يفطر، ولايطعم يوم الأضحى حتى يصلي، وفي رواية: ولايأكل يوم النحر حتى يذبح، ولأن في الأضحى شرعت الأضحية والأكل منها، فاستحب أن يكون الفطر على شيء منها".

(الموسوعة الفقهیة الکوتیة، ج:45، صفحة:341)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212200909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں