بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا حکم


سوال

عید پر نئے کپڑے پہنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

عید کے دن دست یاب  کپڑوں میں سے سب سے بہترین کپڑے پہننا مستحب ہے, چاہے وہ کپڑے نئے ہوں یا دھلے ہوئے ہوں، رسول اللہ ﷺ عید اور جمعہ کے دن دست یاب لباس  میں سے سب سے بہترین لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے، لہٰذا عید پر نئے کپڑے پہننا جائز تو ہے،  لیکن سنت کی ادائیگی کے لیے باقاعدہ نئے کپڑے خرید کر یا سلوا کر پہننا لازم نہیں ہے، بلکہ جو کپڑے دست یاب ہوں ان ہی میں سے جو نسبتاً سب سے زیادہ عمدہ لباس ہو اس کو دھوکر صاف ستھری حالت میں پہننے سے بھی سنت ادا ہوجائے گی۔

باقی عید کی خوشی اور نعمت کے شکرانے کے طور پر عید کے لیے بشرطِ استطاعت نیا لباس بنانا مستحسن ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 168):
"(ولبسه أحسن ثيابه) ولو غير أبيض.

 (قوله: ولو غير أبيض) قال في البحر: وظاهر كلامهم تقديم الأحسن من الثياب في الجمعة والعيدين وإن لم يكن أبيض، والدليل دال عليه فقد روى البيهقي «أنه عليه الصلاة والسلام كان يلبس يوم العيد بردةً حمراء» وفي الفتح: الحلة الحمراء عبارة عن ثوبين من اليمن فيهما خطوط حمر وخضر لا أنها أحمر بحت فليكن محمل البردة أحدهما اهـ أي أحد الثوبين اللذين هما الحلة أي فلا يعارض ذلك حديث النهي عن لبس الأحمر. والقول مقدم على الفعل والحاظر على المبيح إذا تعارضا فكيف إذا لم يتعارضا بالحمل المذكور اهـ بزيادة وسيأتي إن شاء الله تعالى تمام الكلام على لبس الأحمر في كتاب الحظر والإباحة".

الفتاوى الهندية (1/ 149):
" ويستحب يوم الفطر للرجل الاغتسال والسواك ولبس أحسن ثيابه، كذا في القنية جديدًا كان أو غسيلاً، كذا في محيط السرخسي". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں