بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیدِ غدیرِ خم منانے کی شرعی حیثیت


سوال

عید غدیر کیا ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  آخری سفرحج سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشادفرمایاتھا،اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشادفرمایاتھا: "من كنت مولاه فعلي مولاه"  جس کا میں  دوست  ہوں علی  بھی اس کا دوست  ہے، اس خطبہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلاناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، اللہ  تعالیٰ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اور میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے،اور ان سے بغض و عداوت یانفرت و کدورت ایمان کے منافی ہے۔

باقی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیرِ خُم میں  "من كنت مولاه فعلي مولاه" ارشادفرماناحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے  لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے  لیے تھا ،اورالحمدللہ!اہلِ  سنت  و الجماعت  اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواپنے ایمان کاجزء سمجھتے ہیں۔

چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایاتھا، اور ایک  فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے  لیے خلافت بلافصل ثابت کرتاہے،اورماہ ذوالحجہ  کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے "عید غدیر"  کہتاہے، اور اس دن عید مناتاہے، اس دن عید کی ابتدا  کرنے والاایک حاکم "معزالدولۃ"  گزراہے ،اس شخص نے  18ذوالحجہ 351 ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھااوراس کانام "عید خُم غدیر" رکھا، اس طرح کی عید منانے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے یہ عید نہ  تو مناناجائزہے اورنہ اس میں شرکت درست ہے، کیوں کہ دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں اوردوہی تہوارہیں ، ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ، ان دوکے علاوہ دیگرتہواروں  اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کوخلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے، جس کا بھی تقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان دوررہیں۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود میں ہے:

"عن أنس قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة) أي من مكة بعد الهجرة (ولهم) أي لإهل المدينة (يومان يلعبون  فيهما) وهما: يوم النيروز، ويوم المهرجان، 

(فقال: ما هذان اليومان؟ قالوا: كنا نلعب فيهما) أي في اليومين (في الجاهلية) أي في زمن الجاهلية قبل أيام الإِسلام (فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله قدأبدلكم بهما خيرًا  منهما) أي جعل لكم بدلًا عنهما خيرًا منهما في الدنيا والأخرى. وخيرًا ليست أفعل تفضيل إذ لا خيرية في يوميهما (يوم الأضحى ويوم الفطر) و قدم الأضحى فإنه العيد الأكبر، قاله الطيبي، قال المظهر: فيه دليل على أن تعظيم النيروز و المهرجان و غيرهما من أعياد الكفار منهي عنه.

قال ابن حجر: قد وقع في هذه الورطة أهل مصر ونحوهم, لأن كثيرًا من أهلها يوافقون اليهود والنصارى في أعيادهم، يوافقونهم على صور تلك التعظيمات كالتوسع في المأكل والزينة على طبق ما يفعله الكفَّار، ومن ثم أعلن النكير عليهم في ذلك ابن أمير الحاج في "مدخله" وبين تلك الصور، انتهى ما قاله القاري ملخصًا.

قلت: و كذلك كثير من مسلمي الهند يوافقون أهل الأوثان من الهنود في أعيادهم ويفعلون ما يفعلون، فإلى الله المشتكى، وإنا لله وإنا إليه راجعون."

(باب صلوۃ العیدین، ج:5، ص:202، ط:مركز النخب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں