عید گاہ کی جگہ کم ہونے کی وجہ سے لوگ سما نہيں سکتے، کيا ايسی صورت ميں عيد گاہ کو دو منزلہ کرنے کے بارے ميں شريعت مطہرہ کی کيا راۓ ہے ؟
واضح رہے کہ عید کی نماز کھلے میدان میں ادا کرنا سنت ہے ،لہذا اگر عید گاہ شہر سے باہر ہو اور عید گاہ کے لیے مختص جگہ تنگ پڑرہی رہو تو آس پاس کی زمینوں پر صفیں بنالی جائیں اور اگر عید گاہ شہر کے اندر ہو تو جتنے لوگ عید گاہ میں آسکتےہوں وہ عید گاہ میں نماز پڑھ لیں اور باقی لوگ باہر سڑک پر صفیں بنالیں ۔عید گاہ کو دو منزلہ تعمیر کرنے سے سنیت اور افضلیت فوت ہوجائے گی ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"والخروج إليها) أي الجبانة لصلاة العيد (سنة وإن وسعهم المسجد الجامع) هو الصحيح (ولا بأس بإخراج منبر إليها).
(قوله: هو الصحيح) قال في الظهيرية. وقال بعضهم: ليس بسنة وتعارف الناس ذلك لضيق المسجد وكثرة الزحام والصحيح هو الأول. اهـ.
وفي الخلاصة والخانية السنة أن يخرج الإمام إلى الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ"
(كتاب الصلاة,باب العيدين,2/ 169ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144407102263
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن