بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید غیر خم منانا یا یوم غدیر خم بنانا جائز نہیں ہے


سوال

 دور حاضر میں غدیر خم کی موافقت و مخالفت عروج پر ہے، بکر کہتا ہے کہ اس دن حضور ﷺ نے حضرت علی کرم ﷲ وجہ کریم کی شان کو بلند و بالا فرمایا لہذا یہ دن عید غدیر کے طور پر منایا جائے اور خالد کہتا ہے کہ یہ اہلِ تشیع کا طریقہ ہے اور ان کی سنیوں کے خلاف ایک سازش ہے لہذا یہ نہیں منانا چاہیے اور عمر کا کہنا ہے کہ غدیر کو عید کے طور پر نہ منایا جائے مگر یوم غدیر کے طور پر منانا چاہئے۔ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ صحیح مسئلہ مضبوط دلائل کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں بکر کی بات اس حد تک درست ہے کہ غدیر خم والے واقعہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان کو بلند و بالا فرمایا (یعنی سب کے سامنے مزید واضح فرمایا) البتہ اس دن کو اس وجہ سے  عید کے طور پر منانا کہ حضور صلی اللہ علیہ ولم نے ’من كنت مولاه فعلي مولاه‘ (ترجمہ : جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کے مولا ہیں) فرما کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا اعلان کردیا تھا؛ یہ شرعاً درست نہیں۔ نیز عمر کی بھی یہ بات درست نہیں کہ اس دن کو یومِ غدیر کے طور پر منایا جائے۔

مفتی رشید احمد گنگوہی ہدایۃ الشیعہ میں فرماتے ہیں :

’’ ۔۔۔ اور روزِ غدیر حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ ’من كنت مولاه فعلي مولاه‘ اہلِ سنت کے بسروچشم معتبر و مقبول، چنانچہ مبارکباد دینا حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا حضرت امیر (رضی اللہ عنہ) کو اس بشارت پر اہلِ سنت کی کتب میں موجود ہے مگر بلادتِ شیعہ کا کیا علاج؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مولا ہونے کا کس کو عذر و انکار ہے؟ مولا کے معنی ناصر اور دوست کے آتے ہیں، اور متصرف کے معنی بھی ہیں، سو یہ عبارت کہ بعد اس کے ہے ’أللهم وال من والاه وعاد من عاداه‘ دلیل ظاہر ہے کہ معنی مولا کے یہاں دوست ہیں، اگر عقل ہو، سو دوستی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اہلِ سنت کو اور سب صحابہ کو ہونا ثابت ہوچکی۔۔۔‘‘

(ص 63، دار الاشاعت)

تفصیل کے لیے ذیل میں جامعہ کا فتوی نمبر 144008201430 کا جواب ملاحظہ کریں :

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے)پر خطبہ ارشادفرمایاتھا، اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشادفرمایاتھا:  "من کنت مولاه فعلي مولاه"یعنی جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں،  آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ  کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلاناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لیے تھا ۔ اورالحمدللہ!اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواپنے ایمان کاجز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی  ایک گم راہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتاہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایاتھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتاہے، اوراسے ’’عید غدیر‘‘ کانام دیاجاتاہے۔اس دن عید کی ابتدا  کرنے والاایک حاکم معزالدولۃ گزراہے، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھا اوراس کانام "عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس طرح کی خرافات سے دور رہیں۔ 

الغرض! دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں:  ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ۔  ان دوکے ع

لاوہ دیگرتہواروں اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے نہ مناناجائزہے اورنہ ان میں شرکت درست ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

 "حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص: - قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا . فنال منه . فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( من كنت مولاه فعلي مولاه ) وسمعته يقول ( أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ) وسمعته يقول ( لأعطين الرأية اليوم رجلا يحب الله ورسوله ) ".

(رقم الحديث: ١٢١، فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه ١/ ٤٥)

"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے:

"حدثنا عبد الله قال: حدثني أبي، نا عفان قثنا حماد بن سلمة قال أنا علي بن زيد، عن عدي بن ثابت، عن البراء بن عازب قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر فنزلنا بغدير خم، فنودي فينا: الصلاة جامعة، وكسح لرسول الله صلى الله عليه وسلم تحت شجرتين، فصلى الظهر وأخذ بيد علي فقال: «ألستم تعلمون أني أولى بالمؤمنين من أنفسهم؟» قالوا: بلى، قال: «ألستم تعلمون أني أولى بكل مؤمن من نفسه؟» قالوا: بلى، قال: فأخذ بيد علي فقال: «اللهم من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه» ، قال: فلقيه عمر بعد ذلك فقال: هنيئا لك يا ابن أبي طالب، أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة.".

( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

" حدثنا عبيد بن غنام، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ح وحدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا عثمان بن أبي شيبة، قالا: ثنا شريك، عن حنش بن الحارث، عن رياح بن الحارث، قال: بينا علي رضي الله عنه جالس في الرحبة إذ جاء رجل وعليه أثر السفر فقال: السلام عليك يا مولاي، فقيل: من هذا؟ قال: أبو أيوب الأنصاري، فقال: أبو أيوب سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من كنت مولاه فعلي مولاه»".

(رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)

"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے:

"من كنت مولاه فعلي مولاه قال في النهاية المولى اسم يقع على جماعة كثيرة فهو الرب المالك والسيد والمنعم والمعتق والناصر والمحب التابع والجار وابن العم والحليف والصهر والعبد والمعتق والمنعم عليه وهذا الحديث يحمل على أكثر الأسماء المذكورة وقال الشافعي عنى بذلك ولاء الإسلام كقوله تعالى ذلك بأن الله مولى الذين آمنوا وان الكافرين لا مولى لهم وقيل سبب ذلك ان أسامة قال لعلي رضي لست مولاي انما مولاي رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلمذلك".

( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)

"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :

"من كنت مولاه فعلي مولاه". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: {ذلك بأن الله مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم (11) } وقيل: سبب ذلك أن أسامة قال لعلي لست مولاي إنما مولاي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال - صلى الله عليه وسلم - ذلك''.

(أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وعن زيد بن أرقم) ذكره تقدم (أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: " «من كنت مولاه فعلي مولاه» ") . قيل، معناه: من كنت أتولاه فعلي يتولاه من الولي ضد العدو أي: من كنت أحبه فعلي يحبه، وقيل معناه: من يتولاني فعلي يتولاه، كذا ذكره شارح من علمائنا. وفي النهاية: المولى يقع على جماعة كثيرة فهو الرب والمالك والسيد والمنعم والمعتق والناصر والمحب والتابع والخال وابن العم والحليف والعقيد والصهر والعبد والمعتق والمنعم عليه، وأكثرها قد جاءت في الحديث فيضاف كل واحد إلى ما يقتضيه.الحديث الوارد فيه، وقوله: " من كنت مولاه ". يحمل على أكثر هذه الأسماء المذكورة. قال الشافعي - رضي الله عنه -: يعني بذلك ولاء الإسلام كقوله تعالى: {ذلك بأن الله مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم} [محمد: 11] وقول عمر لعلي: أصبحت مولى كل مؤمن [أي: ولي كل مؤمن] وقيل: سبب ذلك أن أسامة قال لعلي: لست مولاي إنما مولاي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال - صلى الله عليه وسلم -: " «من كنت مولاه فعلي مولاه» " " قضي " قالت الشيعة: هو متصرف، وقالوا: معنى الحديث أن عليا - رضي الله عنه - يستحق التصرف في كل ما يستحق الرسول - صلى الله عليه وسلم - التصرف فيه، ومن ذلك أمور المؤمنين فيكون إمامهم أقول: لا يستقيم أن تحمل الولاية على الإمامة التي هي التصرف في أمور المؤمنين، لأن المتصرف المستقل في حياته هو هو - صلى الله عليه وسلم - لا غير فيجب أن يحمل على المحبة وولاء الإسلام ونحوهما.وقيل: سبب ورود هذا الحديث كما نقله الحافظ شمس الدين الجزري، عن ابن إسحاق أن عليا تكلم بعض من كان معه باليمن، فلما قضى النبي - صلى الله عليه وسلم - حجه خطب بها تنبيها على قدره وردا على من تكلم فيه كبريدة كما في البخاري. وسبب ذلك كما رواه الذهبي، وصححه أنه خرج معه إلى اليمن، فرأى منه جفوة نقصه للنبي - صلى الله عليه وسلم - فجعل يتغير وجهه عليه السلام ويقول: " «يا بريدة ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم؟ " قلت: بلى يا رسول الله. قال: " من كنت مولاه فعلي مولاه» ". رواه أحمد والترمذي.وفي الجامع: رواه أحمد وابن ماجه - عن البراء، وأحمد عن بريدة، والترمذي والنسائي والضياء عن زيد بن أرقم. ففي إسناد المصنف الحديث عن زيد بن أرقم إلى أحمد والترمذي مسامحة لا تخفى، وفي رواية لأحمد والنسائي والحاكم عن بريدة بلفظ: " من كنت وليه ". وروى المحاملي في أماليه عن ابن عباس ولفظه: " «علي بن أبي طالب مولى من كنت مولاه» " والحاصل أن هذا حديث صحيح لا مرية فيه، بل بعض الحفاظ عده متواترا إذ في رواية لأحمد أنه سمعه من النبي - صلى الله عليه وسلم - ثلاثون صحابيا، وشهدوا به لعلي لما نوزع أيام خلافته، وسيأتي زيادة تحقيق في الفصل الثالث عند حديث البراء."

(باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)

"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:

" أنا محمد بن عبد الرحمن، قال: أنا الحسين بن إسماعيل، قال: نا محمد بن خلف، قال: نا زكريا بن عدي، قال: نا مروان بن معاوية، قال: نا هلال بن ميمون الرملي، قال: قلت لأبي بسطام مولى أسامة بن زيد: أرأيت قول الناس: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كنت مولاه فعلي مولاه» ؟ قال: نعم، وقع بين أسامة وبين علي تنازع، قال: فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم. قال: فذكرت ذلك له، فقال: «يا علي، يقول هذا لأسامة، فوالله إني لأحبه» . وقال لأسامة: «يا أسامة، يقول هذا لعلي، فمن كنت مولاه فعلي مولاه»".

(رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)

"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:

"فقد ذكرنا من طرقه في كتاب الفضائل ما دل على مقصود النبي صلى الله عليه وسلم من ذلك وهو أنه لما بعثه إلى اليمن كثرت الشكاة عنه وأظهروا بغضه فأراد النبي صلى الله عليه وسلم أن يذكر اختصاصه به ومحبته إياه ويحثهم بذلك على محبته وموالاته وترك معاداته فقال: «من كنت وليه فعلي وليه» وفي بعض الروايات: من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. والمراد به ولاء الإسلام ومودته، وعلى المسلمين أن يوالي بعضهم بعضا ولا يعادي بعضهم بعضا وهو في معنى ما ثبت عن علي رضي الله عنه أنه قال: والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي صلى الله عليه وسلم إلي «أنه لا يحبني إلا [ص:355] مؤمن ولا يبغضني إلا منافق» . وفي حديث بريدة شكا عليا فقال النبي صلى الله عليه وسلم أتبغض عليا؟ فقلت: نعم، فقال: لا تبغضه وأحببه وازدد له حبا، قال بريدة: فما كان من الناس أحد أحب ألي من علي بعد قول رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(باب اجتماع المسلمين على بيعة أبي بكر الصديق وانقيادهم لإمامته وهو أبو بكر عبد الله بن عثمان بن عامر بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة القرشي التيمي، ص 354، دار الآفاق الجديدة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں