بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا سے متعلق افواہ پر مبنی خبریں پھیلانا


سوال

موجودہ دور  میں عموماً لوگ بلاتحقیق افواہیں پھیلاتے ہیں، اسلام اس حوالے سے ہمیں  کیا تعلیم دیتاہے؟ خصوصاً آج کل وبائی مرض پھیلا ہوا ہے، یہ حقیقت تسلیم ہے کہ بیماری موجود ہے، اور وبائی امراض پھیلتے بھی ہیں، نقصان بھی دیتے ہیں، اور اسباب کے درجے میں پھیل بھی جاتے ہیں، احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی چاہییں، تاہم اس کے حوالے سے اتنا خوف پھیلانا جتنا محسوس کیا جارہاہے، کیا اسلام میں کسی بیماری سے بچاؤ اور تدبیر کے درجے میں خوف دلانے کی اجازت ہے؟ تاکہ عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، ورنہ پوری قوم کا ہی نقصان ہوگا؟ اس حوالے سے تشفی بخش راہ نمائی قرآن و سنت کی روشنی میں کردیجیے!

جواب

کسی وبا  یا متوقع نقصان سے بچانے کے لیے دوسروں کو آگاہ کرنا جائز ہے اور اس سے بچاؤ  کی ممکنہ تدابیر بتانا بھی جائز ہے، مگر افواہ سازی اور  مبالغہ آرائی کی شریعت میں گنجائش نہیں ہے۔ خطرہ حقیقت میں جس قدر ہو، بس اتنا ہی بیان کرنے کی اجازت ہے اور ان لوگوں کو بیان کرنے کی اجازت ہے جو علم اور تحقیق رکھتے ہوں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کرنا اور بلا تحقیق انہیں آگے پھیلانا جائز نہیں ہے۔ جو لوگ تدبیر کے نام پر لوگوں کو بتانے کے بجائے  ڈراتے ہیں اور انہیں خوف اور دہشت میں مبتلا کرتے ہیں وہ  خود گناہ کے مرتکب ہیں اور خیر خواہی کے نام پر لوگوں کے بڑے بد خواہ ہیں، کیوں کہ ڈر اور خوف سے لوگ وہم کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہم سب سے بڑی بیماری، بلکہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء: 83]

ترجمہ: اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر ان کو پہنچا دیتے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اور اپنے حاکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پیچھے ہولیتے شیطان کے مگر تھوڑے۔ 

معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"خلاصہ تفسیر :

اور جب ان کو کسی امر (جدید) کی خبر پہنچتی ہے خواہ (وہ امر موجب) امن ہو یا (موجب) خوف (مثلاً کوئی لشکر مسلمانوں کا کسی جگہ جہاد کے لیے گیا، اور ان کے غالب ہونے کی خبر آئی، یہ امن کی خبر ہوئی، یا ان کے مغلوب ہونے کی خبر آئی یہ خوف کی خبر ہے) تو اس (خبر) کو فوراً مشہور کردیتے ہیں (حال آں کہ بعض اوقات وہ غلط  نکلتی ہے اور اگر صحیح بھی ہوئی تب بھی بعض اوقات اس کا مشہور کرنا مصلحتِ انتظامیہ کے خلاف ہوتا ہے اور اگر (بجائے خود مشہور کرنے کے) یہ لوگ اس (خبر) کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور جو (حضرات اکابر صحابہ) ان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان (کی رائے) کے اوپر حوالہ رکھتے (اور خود کچھ دخل نہ دیتے) تو اس (خبر کی صحت و غلط اور قابل تشہیر ہونے نہ ہونے) کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں،  (جیسا ہمیشہ  پہچان ہی لیتے ہیں،  پھر جیسا یہ حضرات عمل درآمد کرتے  ویسا ہی ان خبر اڑانے والوں کو کرنا  چاہیے تھا، ان کو دخل دینے  کی کیا ضرورت ہوئی، اور  نہ دخل دیتے تو کون سا کام اٹک رہا تھا ؟ آگے اَحکام مذکورہ سنانے کے بعد جو سر تا سر متضمنِ مصالحِ  دنیویہ واخرویہ ہیں بطورِ  منت کے مسلمانوں کو ارشاد ہے) اور اگر تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا (یہ خاص) فضل اور رحمت (کہ تم کو قرآن دیا اپنا پیغمبر بھیجا یہ اگر) نہ ہوتا تو تم سب کے سب) ضررِ  دنیوی و اخروی اختیار کر کے) شیطان کے پیرو ہوجاتے بجز تھوڑے سے آدمیوں کے (جو بدولتِ عقلِ سلیم خدا داد کے کہ وہ بھی ایک خاص فضل و رحمت ہے، اس سے محفوظ رہتے،  ورنہ زیادہ تباہی ہی میں پڑتے، پس تم کو ایسے پیغمبر اور ایسے قرآن کو جن کی معرفت ایسے مصالح کے احکام آتے ہیں برخلاف مذکورہ منافقین کے،  بہت غنیمت سمجھنا  چاہیے اور پوری اطاعت کرنا چاہیے۔) ... 

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان نہیں کرنا  چاہیے، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا :کفی بالمرء کذباً أن یحدث بکل ماسمع، ” یعنی کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کر دے۔ “

ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا : من حدث بحدیث و هویری أنه کذب فهو أحد الکاذبین.” یعنی جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔ “ (تفسیر ابن کثیر) ........

فوائد مہمہ :۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سے امن اور خوف کے بارے میں تم خود بخود خبریں نہ اڑاؤ، بلکہ جو اہلِ  علم اور ذی رائے ہیں ان کی طرف رجوع کرو، پھر و غور و فکر کر کے جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو، ظاہر ہے کہ مسائل حوادث سے اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔

تو جواب یہ ہے کہ آیت  واذا جآءھم امرمن الامن اوالخوف میں دشمن کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا امن اور خوف  عام ہے، جس طرح ان کا تعلق دشمن سے ہے، اسی طرح مسائلِ  حوادث  سے بھی ہے، کیوں کہ جب کوئی جدید مسئلہ عامی کے سامنے آتا ہے جس کی حلت اور حرمت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، تو وہ فکر میں پڑجاتا ہے کہ کون سا پہلو اختیار کرے اور دونوں صورتوں میں نفع، نقصان کا احتمال رہتا ہے تو اس کا بہترین حل شریعت نے یہ نکالا کہ تم اہلِ  استنباط کی طرف رجوع کرو، وہ جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو۔ (احکام القرآن للحصاص ملخصاً) "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200973

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں