بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احتلام کے بعد بغیر غسل کے ہم بستری کرنا


سوال

کیا احتلام ہونے کے بعد بغیر غسل کیے ہم بستری کر سکتے  ہیں؟

جواب

اگر کسی شخص کو احتلام ہو جائےاور پھر وہ  اپنی بیوی سے  صحبت کرنا چاہے تو افضل تو یہ ہے کہ  غسل کر کے صحبت کرے؛ کیوں کہ احتلام شیطان کی طرف سے ہوتا ہے،اور احتلام کے فوراً بعد جب صحبت کی جائے گی تو اندیشہ ہے کہ کہیں  اس صحبت سے ٹھہرنےوالے حمل میں شیطانی اثرات شامل نہ  ہوجائیں اور شیطان اس مولود کو نقصان پہنچائے،اس   لیے بہتر یہ ہے کہ ہم بستری کرنے سے پہلے غسل کرلیا جائے، یا کم از کم  شرم گاہ کو دھو لے اور نماز والا وضو کر لے، اور آخری درجہ یہ ہے کہ شرم گاہ اور ہاتھ منہ دھو لے پھر صحبت کرے،  اور اگر بالکل پانی کو چھوئے بغیر صحبت کرلے تو یہ بھی جائز ہے۔

در مختار میں ہے:

"ولا معاودة  أهله قبل اغتساله إلا إذا احتلم لم يأت أهله. قال الحلبي: ظاهر الأحاديث إنما يفيد الندب لا نفي الجواز المفاد من كلامه."

شامی میں ہے:

"(قوله: لم يأت أهله) أي ما لم يغتسل لئلا يشاركه الشيطان كما أفاده ركن الإسلام. وفي البستان قال ابن المقنع، يأتي الولد مجنونا أو بخيلا إسماعيل.

(قوله: ظاهر الأحاديث إلخ) يشعر بأنه وردت في الاحتلام أحاديث والحال أنا لم نقف فيه على حديث واحد. والذي ورد «أنه صلى الله عليه وسلم دار على نسائه في غسل واحد» وورد «أنه طاف على نسائه واغتسل عند هذه وعند هذه» فقلنا باستحبابه. وأما الاحتلام فلم يرد فيه شيء من القول والفعل، على أنه من جهة الفعل محال؛ لأن الأنبياء صلوات الله عليهم وسلامه معصومون عنه، غاية ما يقال إنه لما دل الدليل على استحباب الغسل لمن أراد المعاودة علم استحبابه للجنب إذا أراد ذلك سواء كانت الجنابة من الجماع أو الاحتلام. اهـ. نوح أفندي وهو كلام حسن، إلا أن عبارة الحلبي ليس فيها استدلال بالأحاديث على الندب، وإنما نفي الدليل على الوجوب والشارح تابع صاحب البحر في عزو هذه العبارة إليه، ونص عبارة الحلبي في الحلية بعد نقله جملة أحاديث: فيستفاد من هذه الأحاديث أن المعاودة من غير وضوء ولا غسل بين الجماعين أمر جائز، وأن الأفضل أن يتخللها الغسل أو الوضوء ثم قال بعد نقله الفرع المذكور عن المبتغى بالغين المعجمة، وهو قوله إلا إذا احتلم لم يأت أهله، هذا إن لم يحمل على الندب غريب ثم لا دليل فيما يظهر يدل على الحرمة. اهـ."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 175)،كتاب الطهارة،  مطلب سنن الغسل، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں