بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احتیاطا تجدید نکاح کے لیے گواہان شرط ہیں؟


سوال

اگر کوئی میاں بیوی احتیاطاً نکاح کی تجدید کرتے ہیں( احتیاطاً کا مطلب یہ ہے کہ ان سے کوئی بھی کلمہء کفر صادر نہیں ہوا وہ محض بس احتیاط کے طور ہر مہینے تجدیدِ نکاح  کرتے ہیں) تو اب کیا جب جب وہ تجدیدِ نکاح کریں گے،تو اس میں گواہوں کا ہونا لازمی ہوگا؟ کیوں کہ اس سے تو حرج لازم آئے گا ، تو گواہوں کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہ اور مہر کا ہونا شرط ہے، تاہم اگر احتیاطاً تجدیدِ نکاح کیا جائے  یعنی جب  تفریق کے اسباب میں سے کسی سبب کےبغیر تجدیدِ نکاح کیا جائے ،تو اس  میں  نیا مہر مقرر کرنا لازم نہیں ہے، البتہ گواہان کی موجودگی شرط ہے، اس کے بغیر تجدیدِ نکاح درست نہیں ہوگا، آپ کی بالغ اولاد، گھر کے افراد و دیگر رشتہ دار بھی نکاح کے گواہ بن سکتے ہیں ، اس لیے گواہان کی شرط میں  حرج نہیں ہے ، ہاں  مہر کی شرط میں حرج پایا جا رہا تھا اس لیے احتیاطا  تجدیدِ نکاح میں مہر کی شرط کو ساقط کر دیا گیا ہے جب کہ  گواہان کی شرط کو باقی رکھا گیا ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار" میں ہے:

"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أَوْ أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين (إن ادعى القريب.

(قوله: وإن لم يثبت النكاح بهما) أي بالابنين أي بشهادتها، فقوله: بالابنين بدل من الضمير المجرور، وفي نسخة لهما أي للزوجين، وقد أشار إلى ما قدمناه من الفرق بين حكم الانعقاد، وحكم الإظهار أي ينعقد النكاح بشهادتهما، وإن لم يثبت بها عند التجاحد وليس هذا خاصا بالابنين كما قدمناه.

(قوله: إن ادعى القريب) أي لو كانا ابنيه وحده أو ابنيها وحدها فادعى أحدهما النكاح وجحده الآخر لا تقبل شهادة ابني المدعي له بل تقبل عليه، ولو كانا ابنيهما لا تقبل شهادتهما للمدعي، ولا عليه لأنها لا تخلو عن شهادتهما لأصلهما، وكذا لو كان أحدهما ابنها والآخر ابنه لا تقبل أصلا كما في البحر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:21-24، ط:سعید)

"رد المحتار "میں ہے:

"والاحتياط أن ‌يجدد ‌الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد ‌نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."

(مقدمة، ج:1، ص:42، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں