بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احتمالی جملہ کو صحیح تعبیر پر محمول کرنا


سوال

موجودہ حالات پر بات کرتے ہوۓ میرے منہ سے نکل گیا کہ آج کل جو بھی کوئی حرام کمائی کی طرف لگا ہوا ہے اللہ تعالی اس کے رزق میں بہت زیادہ برکت ڈال دیتے ہیں، جب کہ رزق حلال اور سچ بولنے والا اور جھوٹ سے بچنے والے کے لیےتو اپنا کھانا پورا کرنا ہی مشکل ہے، کیا ایسے الفاظ ادا کرنے کے بعد تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

مسلمان کو ایسے کلمات کہنے سے گریز کرنا چاہیے کہ جس سے کافر  ہونے کا اندیشہ ہو لہذا اگر کوئی شخص مذکورہ جملہ کہےکہ  "آج کل جو بھی کوئی حرام کمائی کی طرف لگا ہوا ہے اللہ تعالی اس کے رزق میں بہت زیادہ برکت ڈال دیتے ہیں، جب کہ رزق حلال اور سچ بولنے والا اور جھوٹ سے بچنے والے  کے لیے تو اپنا کھانا پورا کرنا ہی مشکل ہے"بالکل غلط بات ہے اور مال حرام پر اللہ کی طرف برکت کی نسبت کرنے میں شانِ خداوندی  میں  بے ادابی کا پہلو پایا جاتاہے؛ لہذا اس پر اس کو چاہے کہ صدق دل سے توبہ واستغفار کرے  اور آئندہ ایسے الفاظ سے اجتناب کرے،  البتہ لا علمی و نادانی میں جو کہا  اس سے یہ شخص کافرنہیں ہوا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين ميں ہے:

" (و) اعلم أنه لا یفتي بکفر مسلم أمکن حمل کلامه علي محمل حسن أو کان في کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایة ضعیفة کما حررہ في البحر وعزاہ في الأشباہ إلي الصغری الخ۔

  (قولہ لا یفتي بکفر مسلم أمکن حمل کلامه علي محمل حسن) ظاھرہ أنه لا یفتي به من حیث استحقاقه للقتل ولا من حیث الحکم ببینونة زوجتة … نعم سیذکر الشارح أن ما یکون کفراً اتفاقًا یبطل العمل والنکاح، وما فیه خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبة وتجدید النکاح اھـ وظاھرہ أنه أمر احتیاط

قولہ (ولو روایة ضعیفة) قال الخیر الرملی: أقول: ولو کانت الروایة لغیر أھل مذھبنا، ویدل علي ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر فمجمعًا علیه اھـ۔

وقال الرافعي (قوله: قال الخیر الرملي) أقول: ولو کانت الروایة لغیر أھل مذہبنا الخ) وقد صرح الحموی بأنہا لو کانت تلک الروایة لغیر مذھبنا وجب علی المفتی المیل إلیہا وتبعه أبو السعود الخیرالرملي ویدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعًا علیه اھـ سندي."

( کتاب الجہاد، باب المرتد، ج:4،ص:229،ط:دارالفكر)

ايضاّ

"إذا کان في مسئلة وجوہ توجب التکفیر ووجه واحد یمنعه، فعلی المفتي أن یمیل إلي الوجه الذي یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم۔ زاد في البزازیة: إلا إذا صرح بإرادۃ موجب الکفر فلا ینفعه التأویل."

( کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب مایشک أنہ ردۃ لایحکم بہا، ج:4،ص:224،ط:دارالفكر)
فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں