بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں عورت کے چہرے کے پردے کا حکم


سوال

 میں الحمدللہ عمرے کی سعادت حاصل کرنے جا رہا ہوں،  میرے کچھ سوالات ہیں:

1۔احرام کی حالت میں عورت کے لیے چہرے کا کتنا حصہ کھلا رکھنا ضروری ہے؟

2۔ اگر اسکارف یا دوپٹہ پہنتے ہوئے یا اتارتے ہوئے چہرے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ یا کتنی دیر تک چہرے پر لگا رہے تو دم یا صدقہ واجب ہوتا ہے؟ کیوں کہ نماز میں سجدہ کرتے ہوئے بھی اسکارف چہرے پر لگ جاتا ہے ۔

3۔ اگر کوئی شخص جس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ دم یا صدقہ دے سکے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ہمارے گروپ میں کچھ احباب ایسے ہیں جن کو عمرہ کرایا جا رہاہے ، ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ دم یا صدقہ دے سکیں تو ایسی صورت  میں کیا حکم ہوگا اگر ان پر کسی وجہ سے دم یا صدقہ واجب ہوجائے؟

جواب

1۔احرام کی حالت میں عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنا منع ہے،  البتہ  شریعت نے عورت کے لیے پردہ ہرحال میں لازم کیا ہے؛ اس لیے عورت  کسی نامحرم کے سامنے آنے پر چادر کو اس طرح آگے کرے کہ چہرے پر نہ لگے اور پردہ بھی ہوجائے، تاکہ اس جگہ بدنگاہی اور بے پردگی نہ ہو،  صحابیات  رضی اللہ عنھن کا بھی یہی عمل رہا ہے۔اب اس حکم کی انجام دہی کے لیے عورت حسبِ سہولت کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرلے کہ پردہ بھی ہوجائے اور احرام کی پابندی پر عمل بھی، مثلاً: ایسے ہیٹ استعمال کرے  جس کے آگے چہرہ ڈھانپنے کے لیےکپڑا لگا ہوا ہو یا گھونگھٹ کو اس طرح گرائے رکھنا کہ پردہ بھی ہو اور کپڑا بھی چہرے پر نہ لگے وغیرہ۔

2۔  اگر حالتِ احرام میں غلطی سےاسکارف یا دوپٹہ پہنتے ہوئے یا اتارتے ہوئے چہرے پر لگ جائے  اور اسے فوراً ہٹادیا جائے تو اس صورت میں کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں آئے گا، البتہ اگر پورے دن یا پوری رات  اس سے زائد وقت کے لیے کپڑا چہرے پر  لگا رہا  تو دم دینا لازم ہوگا، اور اگر اس سے کم وقت تک کپڑا چہرے پر رہا   تو صدقۂ فطر کی مقدار کے برابر صدقہ دینا لازم ہوگا۔

3۔حالتِ احرام میں دم یا صدقہ واجب ہونے کی صورت میں اس  کی ادائیگی لازم ہے، زندگی میں جب بھی استطاعت ہو ان کو ادا کرنا لازم ہوگا، روزے وغیرہ رکھنے سے یہ واجب ادا نہیں ہوگا، البتہ جب تک استطاعت نہ ہو توبہ و استغفار کرتے رہیں، اور  مرتے وقت اگر ترکے  میں مال ہو تو اس میں سے اس دم یا صدقے کی ادائیگی کی وصیت کرنا ضروری ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وإن طيب أو حلق) أو لبس (بعذر) خير إن شاء..

(قوله: بعذر) قيد للثلاثة وليست الثلاثة قيدا، فإن جميع محظورات الإحرام إذا كان بعذر ففيه الخيارات الثلاثة كما في المحيط قهستاني، وأما ترك شيء من الواجبات بعذر فإنه لا شيء فيه على ما مر أول الباب عن اللباب وفيه: ومن الأعذار الحمى والبرد والجرح والقرح والصدع والشقيقة والقمل، ولا يشترط دوام العلة ولا أداؤها إلى التلف بل وجودها مع تعب ومشقة يبيح ذلك، وأما الخطأ والنسيان والإغماء والإكراه والنوم وعدم القدرة على الكفارة فليست بأعذار في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا، أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته. اهـ. وما في الظهيرية من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف كما في البحر."

(كتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ج:2، ص:557، ط: سعيد)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"وأجاز الشافعية والحنفية ذلك بوجود حاجز عن الوجه فقالوا: للمرأة أن تسدل على وجهها ثوباً متجافياً عنه بخشبة ونحوها، سواء فعلته لحاجة من حر أو برد أو خوف فتنة ونحوها، أو لغير حاجة، فإن وقعت الخشبة فأصاب الثوب وجهها بغير اختيارها ورفعته في الحال، فلا فدية. وإن كان عمداً وقعت بغير اختيارها فاستدامت، لزمتها الفدية".

(‌‌الباب الخامس: الحج والعمرة، ‌‌المبحث العاشر ـ محظورات الإحرام أو ممنوعاته، ومباحاته، ج:3، ص:2295، ط: دار الفكر)

ارشاد الساری میں ہے:

"ولا يجوز عن الدم،أي بدلاعنه أداءالقيمة،أي صرف قيمته..."

(باب في أحكام الجنايات وكفارتها، ص:558، ط: إمدادية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں