بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں ہیئر بینڈ لگانے کا حکم/ حنفی کا حنبلی کی امامت کرنے کا حکم


سوال

میرے چند ضروری سوالات ہیں، برائے کرم تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

۱) میں نے زلفیں رکھی ہوئی ہیں، اور چند دن میں میرا عمرے کا سفر ہے، تو کیا میں احرام کی حالت میں بال سنبھالنے کے لیے ہیئر بینڈ  (hair band) لگا سکتا ہوں؟

۲) حنفی آدمی کا حرم کے امام کے پیچھے تراویح اور وتر پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ کسی نے کہا ہے کہ وتر کی قضا لازم ہے، کیا یہ درست ہے؟

۳) حنفی آدمی اگر حنبلی کا امام بنے تو وہ وتر کس مذہب کے مطابق پڑھائے گا؟ اگر حنبلی کہیں کہ ہمارے مذہب کے مطابق پڑھاؤ اور نہ پڑھانے کی صورت میں امامت جانے کا خدشہ ہو، تو حنفی امام کے لیے کیا حکم ہے؟

۴) مذکورہ سوال میں تراویح پڑھانے کا حکم بھی بتادیں؟

۵) حرمین میں جو قیام اللیل ہوتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ نیز حنفی آدمی کا کیا حکم ہوگا؟ کیا وہاں حنفی آدمی قیام اللیل میں امامت کرسکتا ہے؟ اگر کرسکتا ہے تو کیا شرائط ہوں گی؟

۶) حنفی آدمی کی ایسی جگہ امامت کی کیا شرائط ہوں گی، جہاں دیگر مذاہب کے افراد بھی موجود ہوں؟

جواب

1:واضح رہے کہ مردوں کو مندرجہ ذیل تین مسنون طریقوں کے مطابق بال بڑھانے کی اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ پورے سر کے بال برابر رکھے جائیں، کہیں سے کم اور کہیں سے زیادہ نہ رکھے جائیں،وہ تین طریقہ یہ ہیں:

1. کانوں کی لَو تک، 2. کانوں اور کندھوں کے درمیان تک، 3. کندھوں تک۔

ان تین طریقوں سے ہٹ کر مرد کےلیے بال اس طرح بڑھاناکہ عورتوں کے مشابہ ہوجائے، نیز بالوں کو باندھنے یا سمیٹنے کے لیے عورتوں کے طریقوں کے مشابہ کوئی بھی ہیئت اختیار کرنا(مثلاً پونی باندھنا یا ہیئر بینڈ لگانا)جائز نہیں ہے۔

لہٰذابصورتِ مسئولہ احرام کی حالت یا عام حالات میں بال سمیٹنے کے لیے مردوں کےلیے ہیئر بینڈ لگانا عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے جائز نہیں ہے،البتہ کوئی اور ایسا طریقہ اختیار کرناجس میں فساق وفجار یا خواتین کی مشابہت نہ ہو، اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ احرام کی حالت میں اس سے بال ٹوٹنے کا اندیشہ نہ ہو، اگر ایسی کسی چیز کو استعمال کرنے میں بال ٹوٹ جائیں تو تین یا تین سے کم بال ٹوٹنے میں ایک مٹھی گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا، اور تین سے زائد بال ٹوٹنے میں نصفِ صاع گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

2:حنفی شخص کا حرم کے امام کے پیچھے تراویح پڑھناجائز ہے، البتہ حرمین میں چوں کہ ائمہ اپنے مذہب کے مطابق وتر کی دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں اور اس کے بعد پھر صرف ایک رکعت علیحدہ سے ایک نئے سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں، اور احناف کے ہاں یہ طریقہ درست  نہیں ہے؛ اس لیےائمہ حرمین کی اقتداء میں اس طریقہ کے مطابق وتر نہ پڑھیں۔

3:اگر حنفی آدمی کی اقتداء میں حنابلہ یا شوافع وغیرہ بھی نماز پڑھتے ہوں تو وہ اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق ہی وتر کی نماز پڑھانے کا پابند ہے، اور اس کے لیے اپنے مقتدیوں کی رعایت کرناصرف اس وقت تک مستحب ہے، جب تک کہ اس رعایت میں اپنے مذہب کے مکروہ کام کا ارتکاب بھی لازم نہ آئے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں حنفی امام اگر حنابلہ کے طریقہ کے مطابق وتر پڑھائے گا، تو اس کی وتر کی نماز ادا نہیں ہوگی، اور ایک رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھانے کی وجہ سے یہ عمل بھی درست نہیں ہے۔

4:حنفی امام کا حنبلی مذہب کے افراد کو تراویح کی نماز پڑھانے کی اجازت ہے، بشرط یہ کہ وہ کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کریں جس سے حنفی شخص کے مذہب کے مطابق کم ازکم مکروہ کا ارتکاب بھی لازم آئے۔

5:بیس رکعات تراویح پڑھ لینے کے بعد قیام اللیل کی حیثیت محض نفل کی ہے اور ائمۂ احناف کے ہاں نفل کی جماعت باقاعدہ جماعت کے ساتھ پڑھنامکروہ ، اگر چہ اقتداء درست ہوجائےگی، یہی حکم قیام اللیل تداعی کے ساتھ پڑھانے کا بھی ہے۔

6:حنفی آدمی غیر مذہب کے افراد کی امامت کرسکتا ہے،لیکن حنفی شخص کو غیرمذہب کے افراد کے طریقہ کے مطابق نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے، تاہم ان کے مذہب کی رعایت کرناحنفی امام کے لیے مستحب ہے، لیکن یہ صرف اس حد تک ہے کہ ان کی رعایت میں اپنے مذہب کے مطابق مکروہ کام کا ارتکاب بھی لازم نہ آئے۔

عمدة القاري   میں ہے:

"هذا باب في بيان ذم الرجال ‌المتشبهين بالنساء وبيان ذم النساء المتشبهات بالرجال، ويدل على ذلك ذكر اللعن في حديث الباب وتشبه الرجال بالنساء في اللباس والزينة التي تختص بالنساء مثل لبس المقانع والقلائد والمخانق والأسورة والخلاخل والقرط ونحو ذلك مما ليس للرجال لبسه، وتشبه النساء بالرجال مثل لبس النعال الرقاق والمشي بها في محافل الرجال ولبس الأردية والطيالسة والعمائم ونحو ذلك مما ليس لهن استعماله، وكذلك لا يحل للرجال التشبه بهن في الأفعال التي هي مخصوصة بهن كالانخناث في الأجسام والتأنيث في الكلام والمشي."

(ص:٤١،ج:٢٢،کتاب اللباس، باب المتشبهون بالنساء والمتشبهات بالرجال، ط: دار الفکر، بیروت)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"(قال) ولا يدع الحلق في جميع ذلك ملبدا أو مضفرا أو عاقصا، والتلبيد أن يجمع شعر رأسه على هامته، ويشده بصمغ أو غيره حتى يصير كاللبد، والتضفير أن يجعل شعره ضفائر، والعقص هو الإحكام، وهو أن يشد شعره حول رأسه، وقد بينا أن الحلق أفضل، ولا يدع ما هو الأفضل بشيء من هذه الأسباب، وقد لبد رسول الله صلى الله عليه وسلم رأسه كما روينا من قوله، ولبدت رأسي، ومع ذلك حلق."

(ص:٣٣،ج:٤،کتاب المناسک، باب القران، ط: دار المعرفة)

غنية الناسك في بغية المناسك   میں ہے:

"وينبغي أن یراد بقولهم: وفي أقل من الربع صدقة أي بعد أن يكون خصلة؛ لما في الخانية: وإن نتف من رأسه أو أنفه أو لحيته ثلاث شعرات ففي كل شعر كف من طعام، وفي خصلة نصف صاع اهـ، فتبين أن نصف الصاع إنما هو في الزائد على الشعرات الثلاث، أما إذا لم يزد تصدق لكل شعرة بكف من طعام، هذا إذا سقط بفعل محظور الإحرام كالنتف، أما إذا سقط بفعل المأمور به كالوضوء، ففي ثلاث شعرات كف واحدة من طعام، أفاده "أبو السعود" وما في البدائع وغيره: (ولو أخذ شيئًا من رأسه أو لحيته أو لمس شيئا من ذلك فانتثر منه شعرة فعليه صدقة) فلعله تفريع على إطلاق الرواية."

(ص:٢٥٦، باب الجنايات، الفصل الرابع في الحلق وإزالة الشعر، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

البحر الرائق میں ہے:

"وصحح الشارح الزيلعي أنه لا يجوز اقتداء الحنفي بمن يسلم من الركعتين في الوتر وجوزه أبو بكر الرازي ويصلي معه بقية الوتر لأن إمامه لم يخرج بسلامه عنده وهو مجتهد فيه كما لو اقتدى بإمام قد رعف واشتراط المشايخ لصحة اقتداء الحنفي في الوتر بالشافعي أن لا يفصله على الصحيح مفيد لصحته إذا لم يفصله اتفاقا ويخالفه ما ذكر في الإرشاد من أنه لا يجوز الاقتداء في الوتر بالشافعي بإجماع أصحابنا لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل فإنه يفيد عدم الصحة فصل أو وصل فلذا قال بعده والأول أصح مشيرا إلى أن عدم الصحة إنما هو عند الفصل لا مطلقا معللا بأن اعتقاد الوجوب ليس بواجب على الحنفي اهـ. فمراده من الأول هو قوله في شروط الاقتداء بالشافعي ‌ولا ‌يقطع ‌وتره بالسلام هو الصحيح."

(ص:٤٢،ج:٢،کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، ط: دار الكتاب الإسلامي)

حاشية ابن عابدين   میں ہے:

"(لا) ينقضه (مس ذكر) لكن يغسل يده ندبا (وامرأة) وأمرد، لكن يندب للخروج من الخلاف لا سيما للإمام، لكن بشرط عدم لزوم ارتكاب ‌مكروه  مذهبه.

(قوله: لكن يندب إلخ) قال في النهر: إلا أن مراتب الندب تختلف بحسب قوة دليل المخالف وضعفه.

(قوله: لكن بشرط) استدراك على ما فهم من الكلام من أن الإمام يراعي مذهب من يقتدي به سواء كان في هذه المسألة أو غيرها، وإلا فالمراعاة في المذكور هنا ليس فيها ارتكاب ‌مكروه ‌مذهبه. اهـ. ح. بقي هل المراد بالكراهة هنا ما يعم التنزيهية؟ توقف فيه ط. والظاهر نعم، كالتغليس في صلاة الفجر، فإنه السنة عند الشافعي مع أن الأفضل عندنا الإسفار فلا يندب مراعاة الخلاف فيه، وكصوم يوم الشك فإنه الأفضل عندنا. وعند الشافعي حرام، ولم أر من قال: يندب عدم صومه مراعاة للخلاف، وكالاعتماد وجلسة الاستراحة السنة عندنا تركهما ولو فعلهما لا بأس كما سيأتي في محله  فيكره فعلهما تنزيها مع أنهما سنتان عند الشافعي."

(ص:١٤٧،ج:١،کتاب الطهارة، سنن الوضوء، مطلب في ندب مراعاة الخلاف إذا لم يرتكب ‌مكروه ‌مذهبه،ط: ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"ومنها أن الجماعة في التطوع ليست بسنة إلا في قيام رمضان، وفي الفرض واجبة أو سنة مؤكدة لقول النبي صلى الله عليه وسلم صلاة المرء في بيته أفضل من صلاته في مسجده إلا المكتوبة وروي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي ركعتي الفجر في بيته، ثم يخرج إلى المسجد ولأن الجماعة من شعائر الإسلام وذلك مختص بالفرائض أو الواجبات دون التطوعات، وإنما عرفنا الجماعة سنة في التراويح بفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وإجماع الصحابة رضي الله عنهم، فإنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى التراويح في المسجد ليلتين، وصلى الناس بصلاته وعمر رضي الله عنه في خلافته استشار الصحابة أن يجمع الناس على قارئ واحد فلم يخالفوه فجمعهم على أبي بن كعب."

(ص:٢٩٨،ج:١،کتاب الصلاۃ، فصل صلاۃ التطوع، ط: دار الکتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507102018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں