بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت احرام میں شیمپو کا استعمال


سوال

کیا حالت احرام میں شیمپو کا استعمال جائز ہے ؟

جواب

حج کے دوران حلق سے پہلے تک احرام کی پابندیاں باقی رہتی ہیں اور احرام کی حالت میں چاہے حلق کروانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو خوشبو  والا شیمپو استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے،  اگر حلق کے لیے خوشبو  والا شیمپو استعمال کیا  تو اس کے حکم میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

۱)ایسا خوشبو  دار شیمپو جس کی خوشبو  زیادہ ہے تو اس سے سر دھونے سے دم واجب ہوگا۔

۲)ایسا خوشبو  دار شیمپو  جس کی خوشبو ہلکی ہو اور اس سے بار بار سر نہیں دھویا، صرف ایک بار دھویا ہو تو   (صدقہ فطر کی مقدار کے بقدر) صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

۳) ایسا خوشبو  دار شیمپو جس کی خوشبو  ہلکی ہو اور اس سے بار بار سر  دھویا ہو تو اس سے دم لازم آئے گا۔

۴)ایسا شیمپو جس میں خوشبو  بالکل بھی نہ ہو تو اس کے استعمال کرنے سے کچھ بھی واجب نہیں ہوگا۔ 

حج کے مسائل کے انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"احرام کی حالت میں چاہے احرام کھولنے سے پہلے ہی کیوں نہ ہو ، خوشبو والے صابن یا شیمپو استعمال کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے، تا ہم ان چیزوں کے استعمال کرنے کی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ: ا۔ ایسا خوشبو دار صابن یا شیمپو جس کی خوشبو زیادہ ہے تو اس سے سر، چہرہ اور ہاتھ وغیرہ دھونے سے دم واجب ہوگا ۔ ۲۔ اور اگر ان چیزوں میں خوشبو ہلکی ہے اور بار بار نہیں دھو یا تو صدقہ کرناواجب ہوگا۔۳۔ اور اگر ان چیزوں میں خوشبو بالکل نہ ہوتو استعمال سے کچھ واجب نہ ہوگا لیکن احرام والوں کے لئے جسم کامیل دور کرنا مکروہ ہے ،اس لئے احرام کے دوران ایساصابن اور شیمپواستعمال کرنے سے بھی پر ہیز کرنا چاہئے ۔"

(کتاب الحج ،ج:3،ص:36)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے: 

"(وحل له كل شيء إلا النساء)

 (قوله: وحل له كل شيء) أي من محظورات الإحرام كلبس المخيط وقص الأظفار ط وأفاد أنه لايحل له بالرمي قبل الحلق شيء وهو المذهب عندنا كما في شرح اللباب للقاري عن الفارسي، وفي شرحه على النقاية والرمي غير محلل من الإحرام عندنا في المشهور".

(کتاب الحج،مطلب في طواف الزيارة،ج:2،ص:517،ط:دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين. هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق".

(کتاب المناسک،الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن،ج:1،ص:240،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں