بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کے بغیر مکہ جانے کا حکم


سوال

اگرکوئی خاتون پاکستان سےجاکرعمرہ کرےپھرمدینہ جائے اور مدینہ سے واپسی پرحیض آجائےتوحیض کی وجہ سےاحرام نہیں باندھا اور پاکستان آنے  تک پاکی بھی حاصل نہیں ہوئی تو  آپ حضرات نےجواب دیا:

بصورتِ مسئولہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے میقات سے پہلے احرام باندھنا ضروری ہے، مذکورہ عورت کے لیے حکم یہ تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں میقات سے پہلے عمرے کے احرام کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ پڑھ لیتی؛ عورت حالتِ حیض میں بھی احرام باندھ سکتی ہے، حالتِ حیض میں احرام باندھنے کے بعد عورت کے لیے تمام افعال کرنا جائز ہیں، صرف طواف کرنا اور نماز پڑھنا منع ہے، اس لیے احرام کی نیت کرتے وقت جو دو رکعت نماز پڑھی جاتی ہے, وہ نہ پڑھتی، بلکہ غسل یا وضو کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر احرام کی نیت کر کے تلبیہ پڑھ لیتی۔

مکہ مکرمہ پہنچ جانے کے بعد پاک ہونے کا انتظار کرتی اور پاک ہونے کے بعد غسل کر کے عمرہ کرتی، پاک ہوجانے کے بعد عمرہ کرلینے سے عمرہ ادا ہو جاتا اور کوئی دم بھی لازم نہ ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں جب اس خاتون نے احرام ہی نہیں باندھا تواب جب وہ اس حالت میں واپس آگئی تو اس پر بلا احرام کے حدود حرم میں داخلے کی وجہ سے ایک دم لازم ہے جو کہ مکہ مکرمہ بھجوا کر ادا کرلے، اور توبہ و استغفار بھی کرے۔

چندباتیں حل طلب ہیں:

حالت حیض میں عمرہ  کی ادائیگی کیسے ہوگی جب کہ طواف ممنوع ہے؟

کیا اسی حالت میں طواف کرے اور دم ادا  کرے،  چوں کہ اس عورت کی پاکی نہیں ہوئی اور اسی حالت میں واپس لوٹ آئی تو صرف دم واجب ہوگا یاعمرےکی قضابھی؟

جواب

اگر خاتون نے عمرہ کیے بغیر حیض کی وجہ سے احرام کھول دیا اور گھر واپس لوٹ آئی تو اسے ایک دم دینا اور عمرہ کی قضا  کرنا لازم ہوگا۔

مذکورہ خاتون کو اگر واپسی کے وقت تک حیض سے پاکی نہ ہوئی، اور اس نے اسی ناپاکی کی حالت میں عمرہ کرلیا تو اس صورت میں اس پر ایک دم ادا کرنا لازم ہوگا، البتہ واپسی سے پہلے اگر وہ پاک ہوگئی تو عمرہ کا اعادہ کرنا لازم ہوگا، اور دم ساقط ہو جائے گا، تاہم اگر واپسی تک پاکی نصیب نہ ہوئی تو حیض کی حالت میں ادا کیے گئے عمرہ کی قضا لازم نہ ہوگی۔

مسئولہ صورت میں چوں کہ حیض کی وجہ سے مذکورہ خاتون نے عمرہ کے احرام کی نیت ہی نہیں کی تھی، لہذا ان پر بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کی وجہ سے ایک دم اور عمرہ کی قضا لازم ہوگی، اس لیے کہ میقات سے باہر رہنے والوں کے میقات کے   باہر  سے مکہ مکرمہ داخل ہونے کی صورت میں میقات سے احرام کے بغیر گزرنا حرام ہے، اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس کی تلافی کے لیے دم دینا  اور ایک عمرہ بطور قضا لازم ہوتا  ہے۔

اگر ممکن ہو تو کسی سے رابطہ کر کے پیسے بھجواکر حدودِ حرم میں ایک دم ادا کروادیں، یا جب عمرے کے ویزے کھل جائیں تو کسی زائر کے ہاتھ رقم دے کر حدودِ حرم میں دم دلوادیں، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو  جب عمرہ کی قضا کرنے کے لیے جانا ہو اس وقت وہاں حرم میں دم ادا کردیں۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(و) يجب (على من دخل مكة بلا إحرام) لكل مرّة (حجة أو عمرة) فلو عاد فأحرم بنسك أجزأه عن آخر دخوله، وتمامه في الفتح"( شامی: ٢ / ٥٨٣)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

ثم إذا دخل الآفاقي مكة بغير احرام و هو لايريد الحج و العمرة فعليه لدخول مكة إما حجة و إما عمرة، فإن أحرم بالحج او العمرة من غير أن يرجع الي الميقات فعليه دم لترك حق الميقات...الخ

( كتاب المناسك، الباب الرابع في بيان المواقيت، ٢ / ٤٧٥، ط: إظارة القرآن)۔

تنویر الابصار مع الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"قال في الفتح: يوهم ظاهره أن ما ذكرنا من أنه إذا جاوز غير محرم وجب الدم إلا أن يتلافاه، محله ما إذا قصد النسك، فإن قصد التجارة أو السياحة لا شيء عليه بعد الإحرام وليس كذلك؛ لأن جميع الكتب ناطقة بلزوم الإحرام على من قصد مكة سواء قصد النسك أم لا. وقد صرّح به المصنف أي صاحب الهداية في فعل المواقيت، فيجب أن يحمل على أن الغالب فيمن قصد مكة من الآفاقيين قصد النسك، فالمراد بقوله إذا أراد الحج أو العمرة إذا أراد مكة. اهـ".

(شامی،  ٢ / ٥٧٩)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں