بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کے بغیر حدود حرم میں داخل ہونا/ احرام میں ماسک اور دستانے پہننا


سوال

1۔ میں سعودی عرب مین حج کی غرض سے رہائیش پذیر ہوں ابھی کرونا کی وجہ سےعمرہ بند ہے، میں  ابھی  مدینہ سے مکہ جاؤں بغیر احرام کے کیا مجھ پر دم واجب ہوگا ؟

 2۔  اگر میں اہل حل بن کر مکہ مکرمہ میں  رہوں تو کون سا  حج کروں؟

3۔  کیا احرام کی حالت مین ماسک اور دستانے پہنے جاسکتے ہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں دم  لازم ہوگا۔

"غنیة الناسك" میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب". (ص؛60، باب مجاوزة المیقات بغیر إحرام ، ط: إدارة القرآن) 

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

احرام کی نیت کے بغیر میقات سے تجاوز کرنا

2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر آپ اشہر حج میں عمرہ کر لیتے ہیں، تو  ایسی صورت میں آپ صرف حج تمتع کرسکتے ہیں، البتہ اگر آپ اشہر حج میں عمرہ نہ کرسکیں تو ایسی صورت میں حج افراد کر سکتے ہیں۔

نوٹ: چوں کہ آپ نے اپنے ایک اور سوال میں یہ وضاحت بھی کی ہے کہ آپ 20 شوال کو مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں، اور اس سال عمرے کی اجازت نہیں مل رہی ہے، لہٰذا آپ اس سال حجِ افراد ہی کرسکتے ہیں۔

3۔ مروجہ ماسک چہرے کے چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کو چھپالیتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص ( خواہ مرد ہو یا عورت) احرام کی حالت میں مروجہ ماسک گرد و غبار سے بچنے یا کسی اور مقصد کے لیے پوارا دن یا پوری رات پہنے رکھے تو اس صورت میں دم دینا لازم ہوگا، اور اس سے کم پہننے کی صورت میں صدقہ لازم ہوگا، نیز ماسک پہننے والا گناہ گار ہوگا، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے پہنا ہو تو گناہ نہ ہوگا، تاہم دم یا صدقہ کا وجوب تفصیل بالا کے مطابق بہر صورت ہوگا۔

نیز احرام کی حالت میں دستانے خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، مرد کو  پہننے کی اجازت نہیں، پہننے کی صورت میں دم لازم ہوگا، بشرطیکہ کامل دن یا کامل رات پہنے ہوں، کم وقت پہننے کی صورت میں صدقہ لازم ہوگا۔ اور عورت اگر احرام کی حالت میں دستانے پہنتی ہے تو اس پر دم لازم نہیں ہوگا، البتہ عمومی احوال میں عورت کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ احرام کی حالت میں دستانے نہ پہنے۔

غنية الناسك  میں ہے:

"و أما تعصيب الرأس و الوجه فمكروه مطلقاً، موجب للجزاء بعذر أو بغير عذر، للتغليظ إلا ان صاحب العذر غير آثم". ( باب الإحرام، فصل في مكروهات الإحرام، ص: ٩١، ط: إدارة القرآن)

و فيه أيضًا:

"و لو عصب رأسه أو وجهه يومًا أو ليلةً فعليه صدقة، إلا ان يأخذ قدر الربع فدم". ( باب الجنايات، الفصل الثالث: في تغطية الرأس و الوجه، ص: ٢٥٤، ط: إدارة القرآن)

منحة الخالق لابن العابدين  میں ہے:

"(قَوْلُهُ: كُلُّ شَيْءٍ مَعْمُولٌ عَلَى قَدْرِ الْبَدَنِ أَوْ بَعْضِهِ) يَدْخُلُ فِيهِ الْقُفَّازَانِ وَهُمَا مَا يُلْبَسُ فِي الْيَدَيْنِ قَالَ فِي شَرْحِ اللُّبَابِ: وَكَذَا أَيْ يَحْرُمُ لُبْسُ الْمُحْرِمِ الْقُفَّازَيْنِ لِمَا نَقَلَ عِزُّ الدِّينِ بْنُ جَمَاعَةَ مِنْ أَنَّهُ يَحْرُمُ عَلَيْهِ لُبْسُ الْقُفَّازَيْنِ فِي يَدَيْهِ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ، وَقَالَ الْفَارِسِيُّ وَيَلْبَسُ الْمُحْرِمُ الْقُفَّازَيْنِ وَلَعَلَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى جَوَازِهِ مَعَ الْكَرَاهَةِ فِي حَقِّ الرَّجُلِ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ مَمْنُوعَةً مِنْ لُبْسِهِمَا وَإِنْ كَانَ الْأَوْلَى لَهَا أَنْ لَا تَلْبَسَهُمَا لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ» جَمْعًا بَيْنَ الدَّلَائِلِ كَذَا ذَكَرُوهُ لَكِنْ لَيْسَ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الرَّجُلَ مَمْنُوعٌ مِنْ تَغْطِيَةِ يَدَيْهِ اللَّهُمَّ إلَّا أَنْ يُقَالَ هُوَ نَوْعٌ مِنْ لُبْسِ الْمَخِيطِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ اهـ.

وَقَالَ السِّنْدِيُّ فِي الْمَنْسَكِ الْكَبِيرِ وَمَا ذَكَرَهُ الْفَارِسِيُّ مِنْ جَوَازِ لُبْسِهِمَا خِلَافُ كَلِمَةِ الْأَصْحَابِ؛ لِأَنَّهُمْ ذَكَرُوا جَوَازَ لُبْسِهِمَا فِيمَا يَخْتَصُّ بِالْمَرْأَةِ. قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: لِأَنَّ لُبْسَ الْقُفَّازَيْنِ لُبْسٌ لَا تَغْطِيَةٌ، وَأَنَّهَا غَيْرُ مَمْنُوعَةٍ عَنْ ذَلِكَ، وَقَوْلُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: «وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ» نَهْيُ نَدْبٍ حَمَلْنَاهُ عَلَيْهِ جَمْعًا بَيْنَ الدَّلَائِلِ بِقَدْرِ الْإِمْكَانِ اهـ.

وَعَلَى هَذَا فَقَوْلُ السِّنْدِيِّ فِي مَنْسَكِهِ الْمُتَوَسِّطِ الْمُسَمَّى بِاللُّبَابِ أَنَّهُ يُبَاحُ لَهُ تَغْطِيَةُ يَدَيْهِ أَرَادَ بِهِ تَغْطِيَتَهُمَا بِنَحْوِ مِنْدِيلٍ؛ لِأَنَّ التَّغْطِيَةَ غَيْرُ اللُّبْسِ فَلَا يَدْخُلُ فِيهِ لُبْسُ الْقُفَّازَيْنِ". ( البحر الرائق، كِتَابُ الْحَجِّ، باب الإحرام، لُبْسُ الْقَمِيصِ وَالسَّرَاوِيلِ وَالْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَالْقَبَاءِ وَالْخُفَّيْنِ لِلْمُحْرِمِ، ٢ / ٣٤٨، ط: دار الكتاب الإسلامي) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں