بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اہلیہ کے زیورات کی زکوٰة


سوال

میری شادی ۲۰۰۱ء میں ہوئی اور شادی کے موقع پر بنائے جانے والے زیورات میری اہلیہ کو بطور مہر کے دیے گئے۔بندہ وقتا فوقتا اہلیہ سے سے تذکرہ کرتا رہا ہے کہ اس کی زکوۃ اور قربانی کرنا آپ کے ذمہ ہے، قربانی تو میں کرلیا کرتا تھا ، لیکن زکوۃ ادا نہیں کی میں نے اور نہ ہی اہلیہ نے کبھی اس طرف توجہ کی، اب کچھ عرصہ سے بندہ بہت زیادہ پریشان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی زکوۃ میں خود سے ادا کروں۔ ۲۰۰۱ء سے اب تک اس کی زکوۃ ادا نہیں کی گئی۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:1.اگر میری استطاعت نہ ہو تو کیا میں زکوۃ پھر بھی ادا کروں؟ یا میرے ذمہ نہیں ہے؟2.اگر میری اہلیہ کہے کہ میں زیور آپ کی ملکیت میں دیتی ہوں اب اس کے مالک آپ ہیں اور میں چند روز سوچ کر اس کو لینے سے انکار کروں تو کیا یہ میری ملکیت میںرہیں گے یا اسی کی ملکیت میں ہیں اور اس کی زکوۃ کس کو دینی پڑے گی؟3.زکوۃ کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی؟۲۰۰۱ء سے اب تک کی زکوۃ کو کس طرح ادا کیا جائے گا؟اُمید ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں گے۔

جواب

۱۔ سائل کی استطاعت ہو یا نہ ہو بہرصورت بیوی کے زیورکی زکوٰة شوہر پرلازم نہیں ہے۔ ہاں اگر استطاعت ہو اور ادا کردیں توبیوی کے ساتھ احسان ہو گا اور اس کی طرف سے زکوٰة ادا ہو جائے گی۔ ۲۔ اگرآپ کی ملکیت و قبضہ میں دیدیں تو وہ زیورآپ کی ملکیت شمارہوگا اوراس کی زکوٰة آپ پر لازم ہوگی بشرطیکہ اس زیور کوآپ کی ملکیت وقبضہ میں پورا سال گذرجائے، سال گذرنے سے قبل اگرواپس کر دیاگیا تو زکوٰة لازم نہیں ہو گی بلکہ صرف اتنے سالوں یا سال کی زکوٰة آپ کے ذمہ لازم ہو گی جتنے سال وہ زیورآپ کی ملک اور قبضہ میں رہا۔ اگرآپ نے اپنی ملک وقبضہ میں قبول کرلینےکے کچھ عرصہ رکھ کر بیوی کو واپس کردیا، یا لینے سےانکار کردیاتو ایسی صورت میںیہ زیوربیوی ہی کی ملکیت شمار ہوگا اورزکوٰة بھی اسی پرلازم ہوگی ۔ اور اس پر گذشتہ سالوں کی زکوٰة بھی لازم ہے،جس کی ادائیگی کی صورت یہ ہےکہ اگرہر سال کا حساب معلوم ہوتواس کے تناسب سے زکوٰة ادا کردی جائے ورنہ زیورکی موجودہ مالیت کاحساب لگا کر گذشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کی جائے یعنی جتنی زکوٰة اس سال لازم ہورہی ہے اتنی ہرسال کی فرض کرکے زکوٰة ادا کردی جائے ۔ اسی میں احتیاط اورفقراء مستحقین کی رعایت ہے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں