بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل مدرسہ کا سال کے شروع میں تعلیمی فیس مقرر کر کے صرف کوتاہی کرنے والے طلبہ سے فیس وصول کرنے کا حکم


سوال

میں ایک مدرسے کا طالب علم ہوں،ہمارے مدرسے کے ناظم صاحب سال کی افتتاحی تقریب میں اعلان کرتے ہیں کہ" ہمارے مدرسے میں تعلیم مفت نہیں ہے،بلکہ اس کی فیس مقرر ہے اور وہ ہر گھنٹے کے بیس روپے ہیں،تاہم یہ فیس ہر طالب علم سے نہیں لی جائے گی، بلکہ ان طلبہ سے لی جائے گی جو اصول اور ضابطوں کی خلاف ورزی کریں گے" ،اور ان سے بھی ساری فیس نہیں لی جاتی بلکہ جزوی لی جاتی ہے،مثال کے طور پر جو طالب علم ایک دن غیر حاضر ہو،اس سے سو روپے فیس لی جاتی ہےیا ایک نماز کی حاضری  میں موجود نہ ہو تو بیس روپے فیس لی جاتی ہے،اگر طالب علم سنگین جرم کا ارتکاب کرے تو اس کااخراج ہوتاہے،پھر اگر وہ دوبارہ داخلے پر اصرار کرے تو اس سے داخلہ فیس لی جاتی ہے۔

ناظم صاحب سے کسی نے کہا کہ یہ"تعزیر مالی"ہے،جو ناجائزہے،اس پر ناظم صاحب نے کہا کہ یہ تعلیمی فیس ہے،مالی جرمانہ نہیں ہے،کیوں کہ ایک تو ہم سال کے شروع سے طلبہ پر یہ معاملہ واضح کردیتےہیں،دوسرایہ کہ  جرمانہ گزشتہ غلطی کی سزا ہوتی ہے،جب کہ یہ آئندہ کی تعلیم جاری رکھنے کی فیس ہوتی ہے،یہی وجہ  ہے کہ اگر کوئی طالب علم مزید تعلیم جاری نہیں رکھتا تو اس سےکسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی۔

سوال یہ ہےکہ اہل  جامعہ کا طلبہ سےاس طرح فیس لینا جائز ہے یا ناجائزہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ طریقہ پر فیس وصول کرنا  تعزیر مالی ہونے کی بنا پر  جائز نہیں  ہے،ناظم صاحب کا یہ کہنا کہ یہ تعلیمی فیس ہوتی ہے،  درست نہیں،اس لیے کہ فیس تعلیم دینے پر وصول کی جاتی ہے،  نہ کہ عدم تعلیم پر ،جب کہ صورتِ مسئولہ میں  طالب علم کے غیر حاضر ہونے پر(یعنی عدم تعلیم پر) فیس وصول کی جارہی ہے،نہ کہ اس کے تعلیم حاصل کرنے پر،نیز اجرت عمل کی لی جاتی ہے،جہاں عمل ہی نہیں وہاں اجرت کس بات کی؟

اسی طرح طلبہ سے نماز میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے پیسے وصول کرنا بھی مالی جرمانہ ہے،اگرچہ فیس کے نام سے ہی وصول کیا جائے۔

ناظم صاحب کا یہ کہنا کہ جرمانہ گزشتہ غلطی کی سزا کے طور پر لیا جاتاہے،جب کہ ہم یہ پیسے  آئندہ کی تعلیم جاری رکھنے کی فیس  کے طور پر لیتے ہیں ،درست نہیں ہے، کیوں کہ عقد اجارہ میں   اجرت عمل سے پہلے اسی صورت میں لی جاسکتی ہے، جب عقد کی ابتداء  میں تعجیل کی شرط لگائی جائے، جب کہ یہاں طلباء کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تعلیمی فیس پہلے ادا کریں گے،اس کے بعد ان کو تعلیم دی جائے گی۔

وفي حاشية ابن عابدين:

"وفي شرح الآثار: ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ"

(كتاب الحدود،باب التعزير،4/ 61،ط:سعید)

كما في الدر المختار مع رد المختار:

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اه. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اه ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان."

(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، ص: 61، ط: سعید)

وفی البحرالرائق:

"أفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ . والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود، باب حد القذف، فصل في التعزير، ج: 5، ص: 44، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الإجارۃ،4/ 413،ط:رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں