بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 محرم 1447ھ 29 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورعہدصحابہ رضی اللہ عنہم میں کن چیزوں سے صدقہ فطر دیا تھا؟


سوال

حضور- صلی اللہ علیہ وسلم- اور صحابہ -رضی اللہ عنہم اجمعین-گندم ،کھجور ،کشمش وغیرہ میں سے  کس چیز کا فطرانہ دیتے تھے؟ اس پر کوئی واقعہ بھی ذکر کر دیں۔

جواب

رسول اللہ ﷺ نے گندم  سے  صدقہ فطرنصف صاع مقررفرمایا تھااور گندم کے علاوہ دوسرےغلوں (کھجور، جو، کشمش وغیرہ) سےصدقہ فطرایک صاع مقرر کیا تھا، اور آپ ﷺ کے زمانے میں کھجور، جو، پنیر، کشمش اور  مکئی سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا،البتہ آپﷺ کے زمانے میں گندم کی کمی کی وجہ سے عموما گندم سے صدقہ فطر ادا نہیں کیا جاتاتھا،اور آپﷺ کے انتقال فرمانے کے بعد صحابہ -رضی اللہ عنھم اجمعین- کے زمانے میں ان پانچ  چیزوں کے علاوہ گندم کی کثرت کی وجہ سے گندم سےبھی صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا۔

سنن دار قطنی میں ہے:

"حدثنا يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن بهلول ، ثنا جدي ، ثنا سالم بن نوح ، عن ابن جريج ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده ، أن النبي صلى الله عليه وسلم «بعث مناديا ينادي في فجاج مكة ألا إن زكاة الفطر واجبة على كل مسلم ، على كل ذكر وأنثى حر وعبد وصغير وكبير ‌مدان ‌من ‌قمح ، أو صاع مما سواه من الطعام».

(كتاب زكاة الفطر، ج: 3، ص: 68، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو  اعلان کرنے کے لیے بھیجاوہ منادی مکہ کی گلیوں میں یہ اعلان کر رہاتھا کہ: سنو! صدقہ فطر ہر مسلمان مرد و عورت، آزاد اور غلام، چھوٹے اور بڑےپرگندم  سے دو مد(نصف صاع) اور گندم کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے۔"

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا عقبة بن مكرم البصري، قال: حدثنا سالم بن نوح، عن ابن جريج، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جدہ: أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث مناديا في فجاج مكة: "ألا إن صدقة الفطر واجبة على كل مسلم: ذكر أو أنثى، حر أو عبد، صغير أو كبير: مدان من قمح أو سواه، صاع من طعام."

(‌‌أبواب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب ما جاء في صدقة الفطر، ج: 2، ص: 52، ط: دار الغرب الإسلامي)

ترجمہ: "عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں (یہ) اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ: سنو! صدقہ فطر ہر مسلمان مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، گندم سے دو مد(نصف صاع) اور گندم کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے۔"

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن منير: سمع يزيد العدني: حدثنا سفيان، عن زيد بن أسلم قال: حدثني عياض بن عبد الله بن أبي سرح، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: كنا نعطيها في زمان النبي صلى الله عليه وسلم صاعا من طعام، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من زبيب، فلما جاء معاوية، وجاءت السمراء، قال: أرى مدا من هذا يعدل مدين."

(أبواب صدقة الفطر، باب: صاع من زبيب، ج: 2، ص: 548، ط: دارابن کثیر دمشق) 

ترجمہ:"ابو سعید خدری -رضی اللہ عنہ -فرماتے ہیں کہ: ہم  لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع مکئی یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع  کشمش نکالتے تھے۔ پھر جب (حضرت)معاویہ- رضی اللہ عنہ- (مدینہ میں) آئے اور گندم کی کثرت ہوئی تو انہوں نے فرمایا:  میں سمجھتا ہوں  کہ اس (گندم) کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔ 

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب. حدثنا داود (يعني ابن قيس) عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد الخدري؛ قال: كنا نخرج، إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، زكاة الفطر عن كل صغير وكبيرحر أو مملوك. صاعا من طعام، أو صاعا من أقط، أو صاعا من شعير، أو صاعا من تمر، أو صاعا من زبيب. فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبي سفيان حاجا، أو معتمرا. فكلم الناس على المنبر. فكان فيما كلم به الناس أن قال: إني أرى أن مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر. فأخذ الناس بذلك."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير، ج: 2، ص: 678، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت ابوسعید خدری -رضی اللہ عنہ- فرماتے ہیں کہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود تھے تو ہم ہر چھوٹے بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے مکئی کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کھجوروں کا ایک صاع یا کشمش کا ایک صاع صدقہ فطر نکالتے تھے، اور ہم اسی کے مطابق صدقہ فطر ادا کرتے رہے یہاں تک کہ ہمارے پاس (امیر المومنین حضرت) معاویہ بن ابی سفیان -رضی اللہ عنہما- حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے تشریف لائے اور منبر پر لوگوں کو خطاب کیا،آپ نے لوگوں سے جو گفتگو کی اس میں یہ بھی کہا کہ: میں یہ سمجھتا ہوں کہ شام سے آنے والی گندم کے دو مد (نصف صاع) کھجوروں کے ایک صاع کے برابر ہیں۔ اس کے بعد لوگوں نے اس قول کو اپنا لیا۔"

معارف السنن میں ہے:

"(صاع من طعام) وفسروا الطعام هنا بالبر. ورده الزرقاني في شرح الموطأ" بأن المراد منه في حديث أبي سعيد: "الذرة" (مکئی) دون الحنطة، فإنها كانت قليلة في الحجاز في عهد النبوة . قال الحافظ في "الفتح" (3 /295) : وقد رد ذلك ابن المنذر وقال: ظن أصحابنا أن قوله في حديث أبي سعيد: "صاعاً من طعام" حجة لمن قال: "صاعاً من طعام حنطة"، وهذا غلط منه، وذلك أن أبا سعيد أجمل الطعام"، ثم فسره ثم أورد طريق حفص بن ميسرة وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر، ثم ذكر الحافظ حديث ابن عمر عند ابن خزيمة قال: ( لم تكن الصدقة على عهد رسول الله إلا التمر والزبيب والشعير ولم تكن الحنطة )، ثم قال: وهذه الطرق كلها تدل على أن المراد بالطعام في حديث أبي سعيد غير الحنطة، فيحتمل أن تكون الذرة، فإنه المعروف عند أهل الحجاز الآن، وهي قوت غالب لهم، وقد روى الجوزقي من طريق ابن عجلان عن عياض في حديث أبي سعيد : صاعاً من تمر صاعاً من سلت أو ذرة آه."

(أبواب الزکاۃ عن رسول اللہ ﷺ، باب ماجاء في صدقة الفطر، ج: 5، ص: 306، ط: سعید)

اوجز المسالک میں ہے:

 "والجملة أن إرادة الحنطة في حديث أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- مشكل والنظر على طرق الحديث كلها يدل على أنه ما أعطي البر في صدقة الفطر في زمانه، لكنه -رضي الله عنہ- لما أعطى من جميع ما أعطى من الشعير والتمر والأقط وغيرها الصاع كاملاً رأى أن المقدار من كل الواجب صاع، ولذا أنكر على معاوية، لو صحوإلا فقد روي عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- أيضاً مرفوعاً وموقوفاً نصف صاع من بر كما في الزيلعي والدراية عن طبقات ابن سعده.

(کتاب الزکاۃ، باب مکیلة زکاۃ الفطر، ج: 6، ص: 282، ط: دار القلم دمشق)

وفیہ ایضا:

"وقال بحر العلوم في رسائل الأركان وحكم كون حديث مدين خطأ، لأن تقدير المدين كان بعده فخطأ، لأن الصدقة في زمن النبي ﷺ كان من غير الحنطة، لما لا توجد الحنطة إلا قليلاً، وبعد زمانه الشريف قدروا الحنطة على وفق ما كان منصوصاً، انتهى."

(کتاب الزکاۃ، باب مکیلة زکاۃ الفطر، ج: 6، ص: 289، ط: دار القلم دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں