بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایصالِ ثواب کے لیے دن کی پابندی کرنا


سوال

مرنے کے بعد فقیروں کو 21 دن جو کھانا بھیجتے ہیں تو وہ کیسا ہے؟

جواب

ایصالِ ثواب کے لیے دن یا وقت کی پابندی کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے؛ لہٰذا مرنے کے بعد فقیروں کو 21 دن تک کھانا بھجوانا درست نہیں ہے۔

باقی ایصالِ ثواب کے لیے فقراء کو کھانا بھجوانے یا کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1: یہ کھانا مرحوم کے مال سے نہ کھلایا جائے، بلکہ مرحوم کے بالغ ورثاء اپنے مال سے کھلائیں۔

2: یہ کھانا دکھاوے اور رسم کے طور پر نہ ہو، ورنہ یہ بدعت کے زمرے میں آکر بجائے ثواب کے گناہ کا باعث ہوگا۔

3: متعینہ دنوں (مثلًا دس، اکیس یا چالیس دنوں) تک کھلانے کو لازم نہ سمجھا جائے۔ بغیر التزام کے جتنے دن چاہیں کھلا سکتے ہیں۔

4: ایصالِ ثواب کے لیے اسی کھانا کھلانے کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کے علاوہ دیگر چیزوں سے بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔

5: تکلف سے اجتناب کیا جائے، یعنی اگر گنجائش نہ ہو، یا گنجائش کم ہو لیکن لوگوں کے دباؤ یا طعنوں کے خوف سے یا دکھاوے کی نیت سے اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کی فکر کرے، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمیں تکلف سے روکا گیا ہے۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تکلف سے روکا ہے۔ الغرض یہ تکلف مستقل طور پر قابلِ مذمت ہے۔ اگر گنجائش نہ ہو نفل نماز یا نفل روزے کا ایصالِ ثواب کرلے۔

6: کھانے والے سب فقراء اور مساکین ہوں، مال دار نہ ہوں۔

فتاویٰ محمودیہ (ج:9، ص:280) میں ہے:

’’نفسِ ایصالِ ثواب بلا کسی غیر ثابت شدہ پابندی کے مفید اور نافع ہے اور کتبِ حدیث و فقہ سے ثابت ہے۔ کسی دن کی پابندی مثلاً: جمعرات کی پابندی ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے۔ اسی طرح کسی تاریخ کی پابندی مثلاً: 11 ربیع الثانی، 15 شعبان، 10 محرم کی پابندی ثابت نہیں، یہ بھی بدعت ہے۔ اسی طرح کسی شے کی پابندی مثلاً: حلوا، کھچڑا، شربت، پیڑے وغیرہ بھی ثابت نہیں، یہ بھی بدعت ہے۔ اسی طرح کسی جگہ، کسی ہیئت وغیرہ کی پابندی بدعت ہے، میت کے ساتھ توشہ مسئولہ بھی ثابت نہیں بدعت ہے، طحاوی شرح مراقی الفلاح میں اس کی تصریح موجود ہے۔‘‘

الاعتصام للشاطبي (ج:1، ص:53، ط: دار ابن عفان، السعودية):

"ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."

الفتاوى الهندية (ج:1، ص:257، ط: دار الفكر):

"الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة كان أو صوما أو صدقة أو غيرها كالحج وقراءة القرآن والأذكار وزيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام  والشهداء والأولياء والصالحين وتكفين الموتى وجميع أنواع البر، كذا في غاية السروجي شرح الهداية."

الفتاوى الهندية (ج:4، ص:408، ط: دار الفكر):

"رجل تصدق على الميت أو دعا له فإنه يصل الثواب إلى الميت إذا جعل ثواب عمله لغيره من المؤمنين جاز في السراجية."

الفتاوى الهندية (ج:5، ص:344، ط: دار الفكر):

"وإن اتخذ طعامًا للفقراء كان حسنًا إذا كانت الورثة بالغين، فإن كان في الورثة صغير لم يتخذوا ذلك من التركة، كذا في التتارخانية."

مجلة الأحكام العدلية (ج:5، ص:344، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي):

"(المادة 834) الهدية هي المال الذي يعطى لأحد أو يرسل إليه إكراما له."

"(المادة 835) الصدقة هي المال الذي وهب لأجل الثواب."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:240، ط: دار الفكر):

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت."

"وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: "كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعامًا للفقراء كان حسنًا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں