بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

میں الحمد للہ مسلمان ہوں، میرا ایک لڑکی کے ساتھ جو عیسائی ہے تعلق ہے اور اس سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ تو کیا اس لڑکی کا مذہب تبدیل کیے بغیر نکاح کرسکتا ہوں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ لڑکی واقعۃ عیسائی مذہب پر قائم ہے  اور دہریہ نہیں ہے تو اسلام قبول کیے بغیر بھی  سائل کااس عورت سے  نکاح کرنے سے نکاح ہو تو جائے گا اور عورت بیوی بھی بن جائے گی،  لیکن اس میں سائل کے ایمان و اعمال اور سائل کے بچوں کے ایمان و اعمال کے خراب ہونے کا قوی اندیشہ ہے  اور دیگر مفاسد بھی ہیں، خاص کر کے اولاد کی تعلیم و تربیت خطرہ میں پڑے گی، موجودہ دور میں بچوں کی تربیت میں ماں کا عمل دخل غالب ہوتا ہے، اور جو ماں خود مسلمان نہیں وہ اپنے بچے کے لیے  ہر گز اسلامی تعلیم پسند نہیں کرے گی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ وہ اہل کتاب (عیسائی اور یہودی) سے نکاح کرنے سے منع فرماتے تھے، لہذا سائل کے لیے عافیت اسی میں ہے  کہ مذکورہ عیسائی عورت سے نکاح نہ کرے ۔ہاں اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلیتی ہے اور عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیتی ہےتو پھر نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ نکاح سے قبل سائل کا اس عورت سے اس درجہ تعلق ہونا کہ سائل اب اس سے نکاح کرنے پر آمادہ ہے یہ سائل کا فعل شرعا مذموم ہے، اس طرح نا محرم عورتوں سے تعلق اور دوستی ہونا گناہ کا کام ہے، سائل اپنے ماضی پر توبہ کرے، اور  اس عورت سے تعلق ، دوستی، بات چیت  اور میل جول ترک کردے۔ سائل اگر  اس کو مسلمان کر کے نکاح بھی کرنا چاہتا ہے تو اپنے گھر والوں کو اس معاملہ میں شامل کرے اور والدین کے ذریعہ سے لڑکی والوں کے گھر والوں تک نکاح کا پیغام پہنچا کر نکاح کی ترتیب بنائے۔محض اپنی دوستی کی بناء پر نکاح نہ کرے ، اس طرح دوستیوں کی بناء پر کیے گئے نکاح میں عموما نباہ نہیں ہوتا اور ازدواجی زندگی جانبین کی متاثر ہوجاتی ہے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وحل تزوج الكتابية) لقوله تعالى {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب} [المائدة: 5] أي العفائف عن الزنا بيانا للندب لا أن العفة فيهن شرط وعن ابن عمر أنها لا تحل؛ لأنها مشركة؛ لأنهم يعبدون المسيح وعزيرا وحمل المحصنات في الآية على من أسلم منهن وللجمهور أن المشرك ليس من أهل الكتاب للعطف في قوله تعالى {لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين} [البينة: 1] والعطف يقتضي المغايرة وفي قوله تعالى {لتجدن أشد الناس عداوة للذين آمنوا اليهود والذين أشركوا} [المائدة: 82] وفي التبيين ثم كل من يعتقد دينا سماويا وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم......والأولى أن لا يتزوج كتابية ولا يأكل ذبائحهم إلا لضرورة وفي المحيط يكره تزوج الكتابية الحربية؛ لأن الإنسان لا يأمن أن يكون بينهما ولد فينشأ على طبائع أهل الحرب ويتخلق بأخلاقهم فلا يستطيع المسلم قلعه عن تلك العادة. اهـ. والظاهر أنها كراهة تنزيه."

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج نمبر ۳، ص نمبر ۱۱۰،دار الکتاب الاسلامی)

کتاب الاثار لمحمد بن الحسن میں ہے:

"عن حذيفة بن اليمان انه تزوج يهودية بالمدائن فكتب اليه عمر بن الخطاب ان خل سبيلها فكتب اليه : أحرام هي يا امير المؤمنين؟ فكتب اليه :أعزم عليك ان لا تضع كتابي حتي تخلي سبيلها فاني اخاف ان يقتدي بك المسلمون فيختارون نساء اهل الذمة لجمالهن و كفي بذلك فتنة لنساء المسلمين.

قال محمد: وبه نأخذ لا نراه حراما و لكنا نري ان نختار عليهن نساء المسلمين و هو قول ابي حنيفة رحمه الله."

(باب من تزوج الیھودیۃ او النصرانیۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۳۹۴،دار النوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں