بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عیسائی عورت سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

میں ایک امریکی لڑکی کو پسند کرتا ہوں، جو کہ مذہبی طور پر عیسائی ہے، یقیناً ایک عورت جو شرک کرتی ہے، وہ میرے نکاح میں شامل نہیں ہوسکتی، یہاں کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ میں پھر بھی اس سے شادی کر سکتا ہوں، برائے مہربانی میری  راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

اگر کوئی عورت  اصل مذہب عیسائی یا یہودی  کو مانتی ہو، یعنی خدا اور کسی آسمانی کتاب کی قائل ہو اور اسلام سے مرتد ہوکر عیسائی یا یہودی نہ ہوئی ہو، بلکہ اصلا ً عیسائی یا یہودی ہو، توایسی عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد کا نکاح کرنا جائز تو ہے، لیکن مکروہ ہے اور بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے، البتہ  اگر کوئی عورت  (العیاذ باللہ) اسلام سے مرتد ہو کر یہودی یا نصرانیہ ہوئی ہو یا پھر نام کی نصرانیہ یا یہودیہ اور کسی مذہبِ آسمانی کی قائل نہ ہو، تو ایسی عورت کے ساتھ نکاح کسی صورت منعقد نہیں ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، اگر وہ عورت واقعۃً کسی آسمانی مذہب کی قائل ہو اور اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی نہ ہوئی ہو، تو سائل کا اس کے ساتھ نکاح کرنا کراہت کے ساتھ  جائز تو ہوگا، لیکن ایسی عورت کے ساتھ نکاح نہ کرنا ہی عافیت کا موجب ہے، کیوں کہ ایسی عورت سے نکاح کرنے کی صورت میں اولاد کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کا معاملہ خطرہ میں رہے گا، نیز اس کے علاوہ  اور بہت سے  شرعی مفاسد کا  ذریعہ بھی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر موجود فتوٰی ملاحظہ کریں:

اہلِ کتاب لڑکی سے نکاح کے لیے شرائط

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً." 

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره اهـ."

(كتاب النكاح، ج:3،ص:45، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں