بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایجاب وقبول میں جان بوجھ کر دُلہا کے حقیقی باپ جگہ دوسرے کا نام بولنے کا حکم


سوال

ایجاب وقبول کے وقت دُلھا کے اصل باپ کی بجائے دوسرا نام لیا جائے جان بوجھ کر ، کیا یہ نکاح جائز ہوگا؟

جواب

اگر دُلہا مجلس نکاح میں موجود تھا  اور اُس نے خود ایجاب وقبول کیا تو اس صورت میں ولدیت  غلط بتانے کے  باوجود نکاح درست ہوجائے گا،اور اگر دُلہا مجلس نکاح میں موجود نہیں تھا،وکیل نے ایجاب و قبول کیا،تو اِس صورت میں غلط ولدیت کی وجہ سے   نکاح درست نہیں ہوا،لیکن  یاد رہے  کہ  اپنی نسبت حقیقی والد کے علاوہ کسی اور  کی طرف بطورِ ولدیت کرنا  حرام ہے، ایسے شخص کے بارے میں سخت وعیدات احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔

ریاض الصالحین میں ہے:

"باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه

"عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّ ﷺ قالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ".

"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔"

" وعن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه".

"ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔"

فتاوی شامی میں ہے:

'' (غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح۔

(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح.''

( كتاب النكاح، ٣ / ٢٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101588

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں