بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عید، رمضان اور جمعہ کی مبارک بادی کا حکم


سوال

1-ایک دوسرے کو عید،رمضان اور  جمعہ کی مبارک بادی دینا جائز ہے کہ نہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم  سے ثابت ہےکہ نہیں ؟

2-عید کارڈ  دینے کا رواج اگرچہ ابھی تقریباًختم ہوگیاہے ،لیکن واٹس ایپ پر مختلف مواقع پر مختلف کارڈ (عید مبارک  ،رمضان مبارک  اور جمعہ   مبارک وغیرہ) ایک دوسرے کو بھیجاجاتاہے  جن کو خریدنا بھی نہیں پڑتا تو کیا یہ  صحیح ہے کہ نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ اصل   تهنئة(مبارک بادی ) تواحادیث سے ثابت ہے،  لیکن بالخصوص عید ،رمضان اور جمعہ کی مبارک بادی  ثابت ہے کہ نہیں؟ سو اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ ہے:

کہ عید کی مبارک بادی  صحیح احادیثِ مرفوعہ  سے ثابت نہیں ہے ،البتہ آثار ِصحابہ یہ  ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین  عید کے دن  جب ایک دوسرے   سے ملتے  تھے، تو یہ  الفاظ کہتےتھے، "تقبل اللہ مناّ ومنکم" اور  رمضان  کے متعلق ایک روایت میں " شهر مبارك" کے الفاظ آئےہیں  ،  جس کے دو معانی شارحین نے بیان کیے ہیں، ایک معنی یہ ہے کہ یہ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اِس کو ہمارے  اور تمہارےلیے برکت والا مہینہ بنادےاور دوسرامعنی یہ ہے کہ  یہ اخبار ہے یعنی برکتوں والامہینہ آگیااور راجح یہی دوسرامعنیٰ ہے۔ لہذا رمضان  اور عید کی مبارک بادی میں کوئی حرج نہیں ہےالبتہ اس کا ایسا التزام  درست نہیں ہے کہ  مبارک بادی نہ دینے کی صورت میں ناراضگی پید اہو ۔

اور  جمعہ کی مبارک بادی   نہ احادیث ِمرفوعہ سے ثابت ہے اور نہ ہی آثارِصحابہ سے ثابت ہے، لہذا جمعہ کی مبارک بادی سے تو اجتناب بہتر ہے، ا لبتہ دعا کی نیت سےہو تو  گنجائش ہے کیونکہ مبارک کہنا ایک دعائیہ کلمہ ہے   اور رمضان کی مبارک بادی   اور عید کی مبارک بادی میں کوئی حرج نہیں ہےالبتہ اس کا ایسا التزام  درست نہیں ہے کہ  مبارک بادی نہ دینے کی صورت میں  ناراضگی پیدا ہو ۔

2-واٹس ایپ پر ایک دوسرے کو مبارک بادی کے پیغامات بھیجنے سے احتراز کرنا چاہیے،کیونکہ اس سے دعا کی معنویت جاتی رہتی ہے ، نیز اس میں وقت کا بھی ضیاع ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثني أحمد بن إسحاق: حدثنا عثمان بن عمر: أخبرنا شعبة، عن قتادة، عن أنس بن مالك رضي الله عنه:{إنا فتحنا لك فتحا مبينا}. قال: الحديبية، قال أصحابه: هنيئا مريئا، فما لنا؟ فأنزل الله: {ليدخل المؤمنين والمؤمنات جنات تجري من تحتها الأنهار}. قال: شعبة: فقدمت الوفة، فحدثت بهذا كله عن قتادة، ثم رجعت فذكرت له فقال: أما: {إنا فتحنا لك}. فعن أنس، وأما هنيئا مرئيا، فعن عكرمة۔"

(كتاب المغازي، باب: غزوة الحديبية، 1530/4، ط:دار ابن كثير)

فتح الباری میں ہے:

"وروينا في المحامليات بإسناد حسن عن جبير بن نفير قال كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض تقبل الله منا ومنك۔"

(باب الأكل يوم الفطر قبل الخروج، 446/2، ط:دار المعرفة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " أتاكم ") أي جاءكم " رمضان " أي زمانه أو أيامه " شهر مبارك " بدل أو بيان، والتقدير هو شهر مبارك، وظاهره الإخبار أي كثر خيره الحسي والمعنوي، كما هو مشاهد فيه، ويحتمل أن يكون دعاء أي جعله الله مباركا علينا وعليكم، وهو أصل في التهنئة المتعارفة في أول الشهور بالمباركة، ويؤيد الأول قوله صلى الله عليه وسلم: " «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» "، إذ فيه إيماء إلى أن رمضان من أصله مبارك فلا يحتاج إلى الدعاء، فإنه تحصيل الحاصل، لكن قد يقال: لا مانع من قبول زيادة البركة۔"

(كتاب الصوم، الفصل الثالث، 1365/4، ط:دار الفكر)

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وقوله: (وكل بدعة ضلالة) قال القاضي عياض (1): كل ما أحدث بعد النبي صلى الله عليه وسلم فهو بدعة، والبدعة فعل ما لم يسبق إليه، فما وافق أصلًا من السنة يقاس عليها فهو محمود، وما خالف أصول السنن فهو ضلالة، ومنه: (كل بدعة ضلالة)، انتهى. يعني أن قوله: (كل بدعة ضلالة) عام مخصوص البعض۔"

(باب الاعتصام بالكتاب والسنة، الفصل الأول، 445/1، ط:دار النوادر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509100931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں