بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عید گاہ کی زمین پر دار الافتاء بنانے کاحکم


سوال

ایک شخص نے اپنی ذاتی جگہ مین عید گاہ بنایا تھا جہان لوگ عید کی نماز ادا کرتے تھے اب چونکہ آبادی بہت بڑھ گئی ہے اب تقریبا 40 سال کا عرصہ گزر چکا ہے کہ اس عید گاہ میں نماز ادا نہیں کی جاتی اور اسکے دیوار بھی منہدم ہوچکے ہیں اور جس نے جگہ عید گاہ کے لیے دی تھی اب وہ فوت ہو چکا ہے ۔ اب کیا اس عید گاہ کو دوبارہ تعمیر کرکے اس میں  اگر کو ئی  دارالافتاء یا مدرسہ بنا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو زمین عید گاہ  کے لیے وقف  شدہ ہو اس پر مدرسہ  اور دار  الافتاء تعمیر کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم و الدلالة، و وجوب العمل به."

(كتاب الوقف، ‌‌مطلب في وقف المنقول قصدا، 366/4،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لايجوز كذا في الغياثية."

(كتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لايجوز وفي وقف المشاع، ج:2، ص:362، ط:رشيديه)

فتاوی مفتی محمودمیں ہے :

"عید گاہ کی زمین میں مسجد بنانا جائز نہیں ہے, "شرط الواقف کنص الشارع" ؛  لہذا عید گاہ کی زمین میں اس مسجد کی توسیع نہ کی جائے۔"

(باب الحضر والاباحۃ، عیدگاہ کی زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں، ج:10، ص:105، ط:جمعیۃ پبلیکیشنرز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں