بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت وفات کی مدت


سوال

پوچھنا یہ ہے کہ میرے شوہر کا انتقال 24 جولائی بمطابق  13ذی الحجہ  کو ہوا تھا ،اب میری عدت کونسی تاریخ کو اور کس وقت ختم  ہوگی۔انتقال مغرب سے تھوڑی دیر پہلے ہوا تھا ۔اور کیا عدت ساڑھے چار ماہ ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی عورت  کے شوہر کا انتقال قمری مہینے کی ابتدا یعنی پہلی تاریخ کو ہوا ہو تو اس بیوہ کی عدت چاند کے مہینوں کے اعتبار سے چار ماہ دس دن ہوتی ہے، خواہ ان مہینوں میں سے کوئی مہینہ انتیس دن کا ہو  یا تیس دن کا ہو،اور اگر شوہر کا انتقال قمری مہینے کے درمیان میں ہوا ہو تو ایک سو تیس دن شمار کر کے عدت گزارنا لازم ہوتا هے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب  سائلہ کے شوہر  کا انتقال  13 ذی الحجہ کو ہوا ہے تو ایسی صورت میں سائلہ اپنے  شوہر کی وفات کے وقت سے ایک سو تیس دن عدت مکمل کرے گی۔

اور دن کا اعتبار چوبیس گھنٹے کے حساب سے ہوگا، یعنی انتقال مغرب سے تھوڑی دیر پہلے ہوا تھا تو آئندہ دن مغرب سے تھوڑی دیر پہلے ایک دن ہوگا، اس طرح ایک سو تیس دن کا اعتبار کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"في المحيط: إذا اتفق عدة الطلاق والموت في غرة الشهر اعتبرت ‌الشهور بالأهلية وإن نقصت عن العدد، وإن اتفق في وسط الشهر. فعند الإمام يعتبر بالأيام فتعتد في الطلاق بتسعين يوما، وفي الوفاة بمائة وثلاثين۔"

(باب العدة،3/ 509،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں