بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق رجعی کے بعد بیوی کو بائیک پر بٹھا کر گھمانے سے رجوع نہیں ہوتا


سوال

میں نے اپنی بیوی کو چھ سالوں میں تین طلاقیں دے دیں ،اس کے بعد میری سابقہ بیوی نے دوسری جگہ شادی کر لی ،لیکن پھر اپنے دوسرے شوہر سے طلاق لے کر عدت کے بعد  مجھ سے نکاح اپنے گھر والوں کی رضامندی سے کیا ،اس کے بعد میری سسرال والوں سے لڑائی ہو گئی ،جس پر میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ،چند ماہ بعد میرا  بیوی سے رابطہ ہوا ،میں اس سے ملنے گھر چلا گیا ،اپنی بائک پر میں نے اس کو چکر لگوایا ،اس دوران میں نے اپنی بیوی کو ہاتھ وغیرہ بھی لگایا اور مجھے اس وقت چاہت اور شہوت بھی تھی ،میری بیوی کہتی ہے کہ اس وقت میں عدت میں تھی ،لیکن مجھے اس وقت اس کا علم نہیں تھا ،پھر میں نے اپنے سسر سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں دوبارہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،جس پر اس نے مجھ سے کہا کہ آپ نے اس سے عدت میں رجوع نہیں کیا ،اس لیے اب آپ کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ میں اب آپ کے ساتھ رکھنے پر راضی ہوں ،میں اپنی بیوی سے فون پر رابطہ میں رہا اور بچوں کا خرچہ بھی دیتا رہا ،پھر میں نے فون پر  اس سے نکاح کر لیا اور اس وقت دو گواہ بھی آن لائن تھے،لیکن سسر راضی نہیں ہیں اور وہ اس کے ولی بھی ہیں کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ ان کی اجازت کے بغیر رہ سکتا ہوں ۔

وضاحت:بائک میں جب بیٹھایا اس وقت دل میں خواہش تو تھی لیکن برقع میں ملبوس تھی ،باقاعدہ اس کا جسم چھو کر یا شہوت کے ساتھ بوسہ دے کر  رجوع نہیں کیا ۔

جواب

صورت مسئولہ میں طلاق رجعی کے بعد بیوی کو بائیک پر بیٹھا کر گھمانے سے رجوع  نہیں ہوا گو کہ سائل کے دل میں بیوی کی چاہت اور شہوت تھی ،لہذا عدت کے گذر جانے سے ایک طلاق سے دونوں کا نکاح ٹوٹ گیا ،اس کے بعد جو فون پر نکاح کیا ،جبکہ سائل کا وکیل مجلس نکاح میں موجود نہیں تھا ،بلکہ سائل نے فون پر قبول کیا تو اس سے شرعا نکاح منعقد نہیں ہوا،اب اگر دونوں گھر بسانا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ نکاح کا ایجاب و قبول کر کے زندگی گذار سکتے ہیں ۔

واضح رہے کہ دوبارہ نکاح کے بعد آئندہ کے لیے سائل صرف دو طلاقوں کا مالک رہےگا ۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه"

(کتاب الطلاق ،باب الرجعۃ ،ج:6،ص:19 ،ط:دار المعرفہ )

الدر المختار مع الرد میں ہے :

"ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين وفی الرد :(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعا تيسيرا؛ وأما الفور فليس من شرطه؛ ولو عقدا وهما يمشيان أو يسيران على الدابة لا يجوز، وإن كان على سفينة سائرة جاز. اهـ. أي؛ لأن السفينة في حكم مكان واحد"

(کتاب النکاح ،ج:3،ص:24،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں