بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت الوفات کا خرچہ كا حكم اور ترکہ سے متعلق متفرق سوالات كے جوابات


سوال

1)والد صاحب کا انتقال ہوا ،ورثاء میں بیوہ (یعنی ہماری سوتیلی والدہ)،7 بھائی اور تین بہنیں اور والدہ (دادی )ہیں ،ان کی جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟راہ نمائی فرمائیں ۔

2)ہمارے والد صاحب کا ایک فلیٹ  تھا ،ہماری والدہ کے انتقال کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کر لی تھی اور یہ فلیٹ فروخت کر کے دوسرے فلیٹ جو تین کمروں کا تھا اس میں چلے گئے تھے ،اس فلیٹ کو خریدنے کے لیے ان کے پاس رقم کم تھی تو انہوں نے ہماری والدہ کے زیورات 20 لاکھ جو ان کے پاس ہم بہن بھائیوں کی امانت تھی فروخت کر کے اور دوسری بیوی کے ساتھ کچھ رقم ملا کر اس کو خرید ا ،جس پر ہمیں بعض علماء نے بتایا کہ تھا کہ والدہ کے بیس لاکھ میں سے 15 لاکھ ان کی اولاد کو ملیں گے اور بقیہ پانچ لاکھ والد کے تھے اور وہ اب میراث میں تقسیم ہوں گے، آپ اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں،والدہ کے ورثاء میں سات بیٹے ،تین بیٹیاں ،شوہر  تھے ،پھر شوہر کا انتقال ہوا ورثاء میں سات بیٹے ،تین بیٹیاں اور والدہ ہیں ؟

3)سوتیلی والدہ کہتی ہیں کہ فرنیچر اور جہیز کی مد میں میں نے 45 ہزار روپے دیے تھے ،جب کہ یہ فرنیچر 6 ماہ بعد  فروخت بھی کر دیا تھا ،نیا فرنیچر ہمارے والد نے بنایا تھا ،ہم 45 ہزار دینے کے لیے تیار ہیں ،لیکن وہ نیا فرنیچر بھی مانگ رہیں ہیں ۔وہ فرنیچر سوتیلی والدہ کی رضامندی سے بیچا تھا اور اس وقت کوئی معاہدہ بھی نہیں ہوا تھا ۔

4)سوتیلی والدہ کے بھائی عدت کا خرچہ بھی مانگ رہے ہیں ۔

5)ہماری سگی والدہ کی کچھ سونے کی چیزیں سوتیلی والدہ کے پاس ہیں وہ بھی نہیں دے رہے ہیں ،کہہ رہے ہیں کہ مرحوم نے پہلی بیوی کی ساری چیزیں دوسری بیوی کو دے دی ہیں ۔اس کا کیا حکم ہے؟

6)نئے فلیٹ میں والد نے سارا سامان نیا لیا تھا ،لیکن اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی جو ہماری سگی والدہ کی تھیں ،اس کا کیا حکم ہے؟

7)سوتیلی والدہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ کے والد کو ایک لاکھ پچاس ہزار ادھار دیا تھا اور اس میں سے  ایک لاکھ کا فریج خریدا تھا ،لیکن اس کا ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔

8)سوتیلی والدہ اور ان کے خاندان اس پر قابض ہے اور اس میں ہمیں آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب تک مسئلہ کا حل نہیں نکلتا ہے قابض رہیں گے اس کا کیا حکم ہے؟

9)فلیٹ کے واجبات ہیں یعنی 5 ماہ سے سوتیلی والدہ رہ رہے ہیں تو اس کا بجلی کا بل پانی وغیرہ کا بل کس پر لازم ہے  ؟

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں   مرحوم والد  کے ترکہ کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو24  حصوں میں تقسیم کر کے4 حصے والدہ کو ، 3 حصےبیوہ کو ،2حصے کر کے  ہرایک بیٹے کو اور1 حصے  کر کے ہر ایک بیٹی  کو  ملے گا ۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت : (والد)  24 

والدہبیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
432222222111

یعنی 100 فیصد میں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،والدہ کو 16.666 فیصد، ہر ایک بیٹے کو 8.333 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 4.166 فیصد ملے گا ۔

2)مذکورہ فلیٹ میں جتنی رقم سوتیلی والدہ نے لگائی تھی ،اس کے بقدر وہ اس مکان میں شریک ہے ،بیس لاکھ روپے جو والد صاحب نے سائل کی والدہ کے زیورات بیچ کر لگائے تھے ،اس کے بقدرحصہ میں   والدہ کے تمام ورثاء کا حق ہے جو  مندرجہ ذیل طریقے سے  تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا ،اس کے علاوہ جتنا حصہ ہے وہ والد صاحب کی ملکیت تھا ،اب والد صاحب کے انتقال کے بعد والد صاحب کے ورثاء میں مذکورہ بالا طریقے  سے تقسیم ہوگا ،   مرحومہ سگی والدہ کے ترکہ کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ مرحومہ کے  حقوقِ  متقدمہ  یعنی مرحومہ کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو1632 حصوں میں تقسیم کر کےمرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 178 حصے ،ہر ایک بیٹی کو 89 حصے ،مرحومہ کے شوہر کی والدہ کو 68 حصے اور مرحومہ کے شوہر کی دوسری بیوی کو 51 حصے ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:(والدہ ) 4 / 68 / 1632 

شوہربیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹا بیٹیبیٹیبیٹی
13
176666666333
فوت144144144144144144144727272

میت :(شوہر)  24            ۔۔۔۔           ما فی الید  17

والدہ بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
432222222111
685134343434343434171717

یعنی 100 فیصد میں سے مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 10.906 فیصد ،ہر ایک بیٹی کو 5.453 فیصد ،مرحومہ کے شوہر کی والدہ کو 4.166 فیصد  اور مرحومہ کے شوہر کی دوسری بیوہ کو  3.125 فیصد ملے گا ۔

3)اگر سوتیلی والدہ کی اجازت سے والد صاحب نے وہ فرنیچر فروخت کیاتھا ،اور اس وقت کوئی زبانی یا تحریری معاہدہ نہیں ہوا تھا تو یہ سوتیلی والدہ کی طرف سے تبرع و احسان شمار ہوگا ،سوتیلی والدہ کو اس کے  بدلہ نئے فرنیچر کےمطالبہ کا حق نہیں ہے ۔

4)سوتیلی والدہ کو عدت وفات کے خرچہ کے مطالبہ کا حق نہیں ہے ۔

5،6)سگی والدہ کی جتنی بھی چیزیں ہیں ،وہ سب والدہ کے ورثاء میں  مذکورہ بالا طریقے سے تقسیم ہو ں گی ،والد کا  ان چیزوں کو سوتیلی والدہ  کے حوالہ کرنے سے  وہ چیزیں سوتیلی والدہ کی نہیں ہو گئیں۔

7)اگر سوتیلی والدہ کے پاس اس بات کے شرعی گواہ ہیں کہ انہوں نے والد صاحب کو ایک لاکھ پچاس ہزار ادھار دئیے تھے تو پھر یہ رقم والد صاحب کے ترکہ سے منہا کی جائے ،اور اگر ان کے پاس اس بات کے شرعی گواہ نہیں ہیں تو پھر دیگر ورثاء جو اس بات کا انکار کر رہے ہیں ان پر عدم علم کی قسم آئے گی کہ وہ اس بات پر قسم کھائیں  گے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ انہوں نے والد صاحب کو ادھار رقم دی ہے ،قسم کھا لینے کے بعد وہ رقم والد صاحب کے ترکہ سے منہا نہیں کی جائے، بلکہ تمام ورثاء میں حسب سابق تقسیم ہوگی ۔

8)مذکورہ گھر میں تمام ورثاء کا حق ہے ،کسی ایک وارث کا اس پر قبضہ کر لینا ،میراث کی تقسیم سے رکاوٹ بننا اور دیگر ورثاء کو اس کے انتفاع سے محروم کرنا شرعا جائز نہیں ، دیگر ورثاء کی حق تلفی ہے ، تمام ورثاء پر لازم ہے کہ جلد از جلد  میراث کو شرعی اعتبار سے  تقسیم کریں ۔

9)مذکورہ گھر میں سوتیلی والدہ ہی رہ  رہی ہیں ،لہذا اس گھر کے تمام تر واجبات سوتیلی والدہ پر ہی لازم ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والربح في شركة الملك على قدر المال۔"

(کتاب الشرکة،مطلب فیما یبطل الشرکۃ ،ج:4،ص:316،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة۔"

(کتاب الہبۃ،ج:4،ص:374،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"إذا ‌كان ‌لاثنين أو أكثر في ذمة واحد دين ناشئ عن سبب واحد فهو دين مشترك بينهم شركة ملك ، وإذا لم يكن سببه متحدا فليس بدين مشترك كما يظهر ويتضح من المواد الآتية۔"

(الکتاب الشرکات ،ص:210 ،ط:نور محمد )

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"‌وإن ‌كان ‌الأب ‌قد ‌مات وترك أموالا، وترك أولادا صغارا كانت نفقة الأولاد من أنصبائهم، وكذا كل ما يكون وارثا فنفقته في نصيبه، وكذلك امرأة الميت تكون نفقتها في حصتها من الميراث حاملا كانت أو حائلا۔"

(کتاب الطلاق ،باب في  النفقات ،ج:1،ص:564،ط:رشیدیہ)

الدر المختار ميں هے:

"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) ‌التحليف (‌على ‌فعل ‌غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا۔"

(رد المحتار ،کتاب الدعوی ،ج:5،ص:552،ط:سعید)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

        "المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات ج:2 /ص:226 /ط:دار المعرفۃ) 

صحیح مسلم میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اقتطع أرضا ظالما، لقي الله وهو عليه غضبان۔"

(کتاب الایمان ،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار ،ج:1،ص:124،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:

"جس نے ظلم کرتے ہوئے زمین روک لی وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالی اس پر غصہ ہونگے (اور اس سے ناراض ہوں گے )۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں