بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک طلاق دینے کےبعد عدت کے دوران شوہر کے وفات سے بیوی کےمیراث میں حقدار ہونے کا حکم


سوال

اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے اور ابھی اس پر تین طہر نہ گزرے ہوں اور خاوند فوت ہو جائے، تو کیا اس عورت کو  شوہر کی وراثت میں حصہ ملے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سوال میں ذکر کردہ طلاق سے مراد طلاقِ رجعی ہے تو اگر شوہر نے حالتِ صحت یا حالتِ مرض میں بیوی کے مطالبہ کے بغیر طلاقِ رجعی دی ہو تو  عدت میں شوہر کے انتقال کی صورت میں  بیوی  شوہر  کی میراث میں سے حصہ دار ہوگی، اور اگر طلاق سے مراد طلاقِ بائن ہےتو شوہر نے اگر حالتِ مرض میں طلاق دی ہے، اور پھر اسی عدت میں اسی مرض کی وجہ سےشوہر کا انتقال ہوگیا تو  بھی بیوی میراث کی حق دار ہوگی، تاہم اگر شوہرنے  حالتِ صحت میں طلاقِ بائن دی ہے تو  بیوی میراث کی حق دار نہیں ہوگی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله طلقها رجعيا أو بائنا في مرض موته، ومات في عدتها ورثت وبعدها لا) لأن الزوجية سبب إرثها في مرض موته، والزوج قصد إبطاله فيرد عليه قصده بتأخير عمله إلى زمن انقضاء العدة دفعا للضرر عنها، وقد أمكن لأن النكاح في العدة يبقى في حق بعض الآثار فجاز أن يبقى في حق إرثها عنه بخلاف ما بعد الانقضاء لأنه لا مكان، والزوجية في هذه الحالة ليست بسبب لإرثه عنها فيبطل في حقه خصوصا إذا رضي به..ـ.

أطلق الرجعي ليفيد أنها ترث، وإن طلق في الصحة ما دامت في العدة لبقاء الزوجية بينهما حقيقة حتى حل الوطء، وورثها إذا ماتت فيها.

(قوله أطلق الرجعي ليفيد إلخ) قال في النهر، وعندي أنه كان ينبغي حذف الرجعي من هذا الباب لأنها فيه ترث، ولو طلقها في الصحة ما بقيت العدة بخلاف البائن فإنها لا ترثه إلا إذا كان في المرض، وقد أحسن القدوري في اقتصاره على البائن، ولم أر من نبه على هذا."

(کتاب الطلاق، باب طلاق المریض، ج:4، ص:46، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں