بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت عدت کے خرچہ کی حق دار کب ہوتی ہے؟


سوال

1۔ عدت کے خرچے کی حق دار عورت کب ہوتی ہے؟

2۔ اگر عورت شریعت کے مطابق عدت کے خرچے کی حق دار نہ ہو اور کورٹ کے ذریعے خرچہ وصول کرلےتو کیا وہ رقم عورت کےلیے حلال ہوگی یا حرام؟

3۔ کورٹ کے ذریعے عدت کا خرچہ وصول کرنے سے نکاح پر شرعًا کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ طلاق یا خلع کے بعد عورت پر عدت شوہر کے گھر میں گزارنا واجب ہے، اور عدت کے لیے باپردہ ماحول کے ساتھ رہائش فراہم کرنا  اور نان نفقہ ادا کرنا شوہر پر لازم ہے،لہٰذا اگر مطلقہ عدت کے ایام شوہر کے گھر میں گزارے یا شوہر کی رضامندی سےیا شوہر کے گھر میں با پردہ عدت گزارنے کا انتظام نہ کر سکنے کی وجہ سے  میکے میں گزارے تو دونوں صورتوں میں عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم ہے، اور اگر مطلقہ بغیر کسی شرعی وجہ کے عدت شوہر کے گھر میں نہ گزارے، بلکہ اپنے میکے میں یا کسی اور جگہ گزارے تو ایسی صورت میں شرعًا عورت عدت کے خرچے کی حق دار نہیں ہوگی۔(1)

2۔ شریعت کی رو سے جب عورت عدت کے خرچے کی حق دار نہ ہو اور وہ کورٹ میں شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کرکے ناحق خرچہ وصول کرلے تو خرچے کی وہ رقم شرعًا عورت کےلیے حلال نہیں ہوگی، بلکہ اسے وہ رقم شوہر کو واپس کرنی ہوگی۔(2)

3۔ اگر عدت طلاقِ رجعی کی تھی تو کورٹ کے ذریعے عدت کا خرچہ وصول کرنے سے اس طلاق کے بعد شرعًا نکاح پر مزید کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ نکاح بدستور قائم رہے گا، اور عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہوگا اگرچہ عورت اس پر راضی نہ ہو۔ اور اگر عدت طلاقِ بائن، یا باہمی رضامندی سے ہونے والے خلع کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں نکاح ہی باقی نہیں رہتا، چہ جائے کہ اس پر کوئی فرق پڑنے کا سوال پیدا ہو، البتہ اگر خلع عدالت کے ذریعے ہوا ہو تو جب تک خلع کی وجہ اور اس کی مکمل کاروائی سامنے نہ ہو اس وقت تک نکاح کے ختم ہونے، عدت اور اس کے بعد کے احکامات پر کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔(3)

(1) فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها ..... والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية. ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة ..... وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة، ج:1، ص:558،557، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

البحر الرائق  ميں  هے:

"المعتدة إذا خرجت ‌من ‌بيت ‌العدة تسقط نفقتها ما دامت على النشوز فإن عادت إلى بيت الزوج كان لها النفقة و السكنى، ثم الخروج عن بيت العدة على سبيل الدوام ليس بشرط لسقوط نفقتها فإنها إذا خرجت زمانا وسكنت زمانا لاتستحق النفقة."  

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:4، ص:217، ط:دار الكتاب الإسلامي بيروت)

(2) قرآنِ کریم میں ہے:

"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ إِلَاّ أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ."‌‌[سورة النساء، آية:29]

ترجمہ: ”اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہوجو باہمی رضامندی سے ہو تو مضائقہ نہیں۔“ (از بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» ."

(مشكاة المصابيح، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، رقم الحدیث:2946، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ: ”حضرت ابوحرۃ رقاشی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار! کسی پر ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔“ (از مظاہرِ حق)

(3) فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:470، ط:المکتبة الرشیدیة كوئته) 

و فيه أيضاً:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها."

(کتاب الطلاق، الباب السادس، ج:1، ص:473، ط:المکتبة الرشیدیة كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(کتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:409، ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں