بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت وفات کے دوران پاسپورٹ بنوانے کے لیے پاسپورٹ آفس جانا


سوال

 زید کے والد صاحب شعبان میں اللہ کو پیارے ہوگئے، اب والدہ جن کی عمر لگ بھگ 83 سال ہے اور وہ ان دنوں عدت کے اوقات گزار رہی ہیں، ان کی عدت آئندہ محرم کے ماہ میں مکمل ہوگی، زید اپنی والدہ کو عدت کے بعد اپنی تعطیل کے موقع پر (بقرعید کی فرصت میں ) اپنے ساتھ سعودی عرب لانا چاہتے ہیں ،تاکہ وہ اپنی والدہ کو اپنے ساتھ سعودی عرب میں  ان کی خدمت کیلئے  رکھ سکیں اور ان کو عمرہ و زیارت وغیرہ کا موقع بھی مل سکے، اس سلسلےمیں ویزہ کی کاروائی کے لیے زید کو ان کے پاسپورٹ کی ضرورت ہے اور ویزہ نکلوانےکیلئے ان کا پاسپورٹ ماہ شوال تک بن جائے  تو زید کو اپنی والدہ صاحبہ کو اپنے ساتھ لانے  میں آسانی  رہے گی ، ورنہ پھر انہیں اس تعطیل کے بعد آئندہ سال ہی یہ موقع مل پائے گا، اب جاننا یہ ہے کہ کیا زید کی والدہ اپنی عدت کے دوران پاسپورٹ بنوانے کے لئے صرف ایک روز چند گھنٹے کے لئے اپنے قریبی ضلع کے پاسپورٹ آفس جا سکتی ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کو  کسی شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہوتا اور مذکورہ عذر ان شدید مجبوریوں میں سے نہیں کہ دوران عدت گھر سے نکلنے کی گنجائش ہو۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت کے ختم ہونے کا  اانتظار کرے ،عدت کے دوران پاسپورٹ کے لیے گھر سے نہ نکلے ،عدت ختم ہونے کے بعد  پاسپورٹ وغیرہ کے لیے گھر سے نکل سکتی ہے ۔

"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق".

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ج:4، ص:166، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144310100909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں