بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے بعد مطلقہ کا نفقہ اور رہائش شوہر پر لازم نہیں ہے


سوال

آٹھ سال پہلے میرے شوہر  (جو میرا چچا زاد ہے)نے مجھے مارا اور تین سے زائد مرتبہ  یہ الفاظ کہے کہ"میں تم کو طلاق دیتا ہوں، چلی  جاؤ"اس پر میری چچی اور محلہ  والے بھی گواہ ہیں،پھر وہ گھر سے چلاگیااور آٹھ سال سے گھر نہیں آیا اور نہ ہی بچوں کا خرچہ دیا،میرے تین بچے ہیں،ایک بیٹا اور دو بیٹیاں،بڑی بیٹی 15 سال کی ہے اور باقی دو اس سے چھوٹے ہیں ،میں خود گھروں میں کام کرکے بچوں کو کھلاتی تھی،میرے رہائش کے لیے  چچا کے گھر میں شوہر کا ایک کمرہ تھا، جس میں ہم رہتے تھے ،اب میرا دیور کہتا ہے کہ میرے بھائی نے آپ کو طلاق دی ہے تو آپ یہ کمرہ خالی کردو، اس میں میرا بھائی اکیلے رہے گا،اب میں بچوں کو لے کر کہاں  جاؤں گی ؟آپ حضرات مجھے فتوی دے تاکہ وہ مجھ سے کمرہ نہ لے اور بچوں کا خرچہ بھی ادا کرے،کورٹ والے مجھ سے فتوی مانگ رہے ہیں، پھر میرا فیصلہ ہوگا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو آٹھ سال پہلے تین سے زائد مرتبہ یہ کہا تھا کہ:"میں تم کوطلاق دیتا ہوں، چلی جاؤ"  تو اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں ، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا تھا،عدت گزرنے کے بعد سائلہ کی رہائش شوہر  پر لازم نہیں ہےاور نہ سائلہ اس کا مطالبہ کرسکتی ہے،البتہ بچوں کا نفقہ اور رہائش ان کے والد کے ذمہ لازم ہے،بچوں کووالد کے کمرے سے بے دخل کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة"۔

(کتاب الطلاق،باب النفقة:ج3،ص:609،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر۔(قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى"۔

(کتاب الطلاق،باب النفقة:ج3،ص:612،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں