بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کاخرچہ


سوال

میری بیٹی کی شادی ہوئی، اس کے بعد چھ یا آٹھ مہینوں کے بعد طلاق واقع ہوئی ،منگنی کے وقت شوہر کے گھر والوں نے اس کو انگوٹھی دی تھی، اس کے بعد ملاقات کے وقت شوہر نے دو کنگن  دیے تھے، اور اب بیوی کے شوہر کے گھر میں کپڑے وغیرہ بھی رہ گئے ہیں،  یہ چیزیں حق مہرکے علاوہ دی ہیں۔ اب پوچھنایہ ہے کہ یہ انگوٹھی اور دو کنگن بیوی کا حق ہے یا نہیں، دوسرا یہ کہ بیوی کی  عدت کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ منگنی اور نکاح کے موقع پر لڑکی کو جو سسرال والوں کی طرف سے بری میں سامان کپڑے زیور  وغیرہ ملتا ہے، اس کے  شرعی حکم میں تفصیل یہ ہے کہ جو سامان کپڑا وغیرہ لڑکی کو تحفتًا ملتے ہیں وہ تمام چیزیں لڑکی کی ہی ملکیت  ہے، اور طلاق کے بعد لڑکی سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا،  اسی طرح جو زیور بطور مہر دیے وہ بھی لڑکی کی ملکیت ہے، البتہ لڑکی کو شادی کے موقع پر مہر کے علاوہ بری کے  جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں ، اگر زیورات  دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطور عایت صرف استعمال کے لیے ہیں تو  پھر یہ زیورات لڑکے والوں کے ملکیت ہوں گے ،اور اگر سسرال والوں نے ہبہ یعنی گفٹ اور مالک بنا کر دینے کی  صراحت کر دی تھی تو پھر ان زیورات کی مالکہ  لڑکی ہوئی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کی خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا،  اگر ان کا عرف اور رواج بطور ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج ہی نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالکہ لڑکی  ہوئی، اور اگر بطور عاریت ہی دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل احد يعلم الجهاز للمراة اذاطلقهاتاخذ كله،واذاماتت يورث عنها."

(باب المهر، ج:3، ص:158، ط:سعيد)

ايضا

" قلت ومن ذلك ما يبعثه إليه قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس."

(باب المهر، مطلب فيما يرسله إلى الزوجة، ج:3، ص:153، ط:سعيد)

شوہر کے گھر عدت گذار نے کی صورت میں مطلقہ نان نفقہ کی مستحق ہوگی، اگر شوہر کے گھر عدت نہیں گذاری تو وہ نان نفقہ کی مستحق نہیں ہوگی۔

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق،‌‌الفصل الثالث في نفقة المعتدة، ج:1، ص:558، ط:دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں