بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدتِ وفات کتنی ہے؟ اور اس میں سفر کرنے کا حکم


سوال

وہ عورت جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، اس عورت کی عدت کیا ہے؟وہ کہا ں گزارے گی؟اور اس عورت کے دو بیٹے ہیں ،ایک بیٹا کراچی میں اور دوسرا اسلام آباد میں ہے، وہ عورت عدت کا کچھ حصہ گزارنے کے بعد اسلام آباد والے بیٹے کے پاس جانا چاہتی ہے،  کیا وہ عورت سفر کر سکتی ہے؟اس بارے میں شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت اگر  حاملہ (امیدسے ) نہ ہو تو اس صورت میں اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے،اگر وہ حاملہ ہو تواس کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے ۔

 مذکورہ عورت اپنی عدت اسی گھر  میں گزارے گی ،جس گھر میں شوہر کے ساتھ رہائش پذیر تھی،بلا ضرورت ِشدیدہ اس گھر سے باہر  نکلنے کی گنجائش نہیں ہے ،؛ لہذا مذکورہ عورت کےلیےجائز نہیں کہ وہ عدت کا کچھ حصہ گزارنے کےبعد باقی عدت اسلام آباد والے بیٹے کے پاس گزارے۔

ارشاد خداوندی ہے:-

"وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ-فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ."

(البقرۃ:234)

ترجمہ:"اور جولوگ تم میں وفات پاجاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑجاتے ہیں وہ بیبیاں اپنےآپ کوروکے رکھیں چار مہینے اور دس دن ،پھر جب اپنی میعاد ختم کرلیں توتم کو کچھ گناہ نہ ہوگا،ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کےلیے کچھ کاروائی کریں قاعدہ کے موافق اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام افعال کی خبر رکھتے ہیں۔"

(بیان القرآن)

فتاویٰ شامی  میں ہے:ـ

"و العدة للموت أربعة أشهر۔۔۔۔وعشرمن الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت مطلقا۔۔۔وفي حق الحامل۔۔وضع جميع حملها."

(کتاب ا لطلاق،باب العدۃ،مطلب فی عدۃ الموت ،ج:3،ص:510،511،ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:ـ

"وأما المتوفى عنها زوجها فيباح لها الخروج نهارا فيمكن التعريض على وجه لا يقف عليه سواها۔۔۔وأما المتوفى عنها زوجها فلا تخرج ليلا ولا بأس بأن تخرج نهارا في حوائجها۔۔۔۔۔۔۔وإذا خرجت بالنهار في حوائجها لا تبيت عن منزلها الذي تعتد فيه، والأصل فيه ما روي "أن فريعة أخت أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - لما قتل زوجها أتت النبي - صلى الله عليه وسلم - فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله»۔۔۔۔۔ومنزلها الذي تؤمر بالسكون فيه للاعتداد هو الموضع الذي كانت تسكنه قبل مفارقة زوجها وقبل موته سواء كان الزوج ساكنا فيه أو لم يكن؛ لأن الله تعالى أضاف البيت إليها بقوله عزوجل {لا تخرجوهن من بيوتهن}."

(کتاب ا لطلاق،فصل فی احکام العدۃ،ج:3،ص:204،205،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں