بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت وفات کی مدت، عدت وفات میں والد کے گھر میں قیام کرنے کا حکم


سوال

شوہر کی وفات کے بعد عدت کی مدت کتنی ہے؟ عدت کے دوران اگر شوہر کے گھر میں کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو تو والد کے گھر میں قیام کرنے کا کیا حکم ہے؟


جواب

عدتِ وفات کی مدت چار ماہ دس دن ہے، اگر چاندی کی پہلی تاریخ کو شوہر کا انتقال ہو تو چار ماہ چاند کے حساب سے پورے کرکے مزید دس دن گزارنا لازم ہوگا، یعنی اگرچہ درمیان میں کوئی مہینہ 29 کا ہو تو بھی وہ پورا مہینہ شمار ہوگا۔ اور اگر چاند کی پہلی تاریخ کے بعد کسی دن انتقال ہوا تو پورے 130 دن عدت ہوگی۔

بیوہ عورت کے لیے عدتِ وفات مرحوم شوہر کے گھر میں ہی گزارنا لازم ہے، عام حالات میں دورانِ عدت رہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لہذا جب تک شوہر کے گھر میں رہائش ممکن ہو تو شوہر کے گھر سے  شفٹ ہوکر کسی دوسرے گھر میں قیام کرنا جائز نہیں ہے، نہ والد کے گھر میں اور نہ ہی کسی اور کے گھر میں، لیکن اگر شوہر کے انتقال کے بعد کسی بھی وجہ سے مرحوم شوہر کے گھر میں کفالت اور رہائش کی کوئی صورت ممکن نہ ہو، مثلًا شوہر بھی ترکہ میں اتنا مال بیوہ کے لیے چھوڑ کر نہ گیا ہو جس سے بیوہ عدت کے دوران اپنا گزر بسر کرسکے  اور مرحوم شوہر کے گھر میں بیوہ کی کفالت کرنے والا بھی کوئی نہ ہو یا گھر کرائے کا ہو اور کرایہ کا کوئی بندوبست نہ ہورہا ہو، مالک مکان، مکان خالی کروادے یا  گھر فروخت کردیا گیا ہو اور خریدار مہلت نہ دے رہا ہو تو ان صورتوں میں بیوہ کے لیے مرحوم شوہر کے گھر سے منتقل ہوکر والد  (یا کسی دوسرے رشتہ دار) کے گھر میں قیام کرنا جائز ہوگا، اور  عدت کی وہی پابندیاں  نئے گھر میں لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.
كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه ( إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

( باب العدة، فصل في الحداد، ٣ / ٥٣٦، ط: دار الفكر)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"(سُئِلَ) فِي امْرَأَةٍ مَاتَ زَوْجُهَا وَهُمَا سَاكِنَانِ فِي دَارِ أَبِيهِ فَلَمْ تَعْتَدَّ فِيهِ بَلْ خَرَجَتْ إلَى غَيْرِهِ بِلَا ضَرُورَةٍ وَأَمَرَهَا الْأَبُ بِالِاعْتِدَادِ فِيهِ فَهَلْ تَعْتَدُّ فِيهِ؟

(الْجَوَابُ) : نَعَمْ وَتَعْتَدَّانِ أَيْ مُعْتَدَّةُ طَلَاقٍ وَمَوْتٍ فِي بَيْتٍ وَجَبَتْ فِيهِ وَلَا يَخْرُجَانِ مِنْهُ إلَّا أَنْ تَخْرُجَ أَوْ يَنْهَدِمَ الْمَنْزِلُ أَوْ تَخَافَ انْهِدَامَهُ أَوْ تَلَفَ مَالِهَا أَوْ لَا تَجِدُ كِرَاءَ الْبَيْتِ وَنَحْوُ ذَلِكَ مِنْ الضَّرُورَاتِ فَتَخْرُجُ لِأَقْرَبَ مَوْضِعٍ إلَيْهِ وَفِي الطَّلَاقِ إلَى حَيْثُ شَاءَ الزَّوْجُ إلَخْ شَرْحُ التَّنْوِيرِ مِنْ الْحِدَادِ."

( باب العدة، ١ / ٥٧، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں