بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت میں دوسری جگہ منتقلی کا حکم


سوال

اگر کوئی عورت عدت میں بیٹھی ہے، اور اس کا بیٹا دہلی میں ہوا کرتا ہے، اور اس کے پاس کوئی کھانے بنانے  والا اور اس کا ساتھ دینے والا کوئی موجود  نہیں ہے، تو کیا وہ عورت اپنے بیٹے کے پاس جا سکتی ہے جب کہ وہ عورت دوسرے شہر میں عدت گزار رہی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت کے لیے طلاق یا شوہر کے انتقال کے بعد شوہر کے گھر میں ہی عدت گزارنا لازم ہے،لہذا صورتِ مسئولہ مذکورہ خاتون جس گھر میں طلاق یا انتقال کے وقت رہائش پذیرتھی،اس گھر میں عدت گزارنا لازم ہے،اور بیٹا کے اکیلے ہونےاور کسی کے  ساتھ نہ ہونے کی وجہ سےمذکورہ عورت عدت کے دوران دوسرے شہر  بیٹے کے پاس نہیں جا سکتی، البتہ عدت پوری ہونے کے بعد جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وتعتدان) ‌أي ‌معتدة ‌طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ج: 3 ص:536 ط: سعید)

البحرالرائق میں ہے:

"‌معتدة ‌الطلاق ‌والموت يعتدان في المنزل المضاف إليهما بالسكنى وقت الطلاق والموت ولا يخرجان منه إلا لضرورة لما تلوناه من الآية والبيت المضاف إليها في الآية ما تسكنه كما قدمناه سواء كان الزوج ساكنا معها أو لم يكن."

(باب العدة، فصل في الإحداد، ج:4 ص:167 ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں