بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کب سے شروع ہوگی اور کہاں گزارنی لازم ہے؟


سوال

میرے ماموں 30 مارچ کو سعودیہ میں انتقال کرگئے تھے ،ان کی میت پاکستان میں پہنچی اورتدفین26اپریل کو گاؤں میں ہوئی ماموں کاگھر کراچی میں ہے۔

درپیش مسئلہ:

1۔ عدت کس وقت سے شمار ہوگی 30مارچ یا26اپریل؟

2۔ عدت  اب گاؤں میں مکمل کرے گی یا واپس کراچی اپنے گھر آکر پوری کرسکتی ہے؛ کیوں کہ ان کے بیٹے واپس  لے کر آنا چاہتے ہیں آنا چاھتے ہیں _ان کے بارے آج ہی بتادیں

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں آپ کے ماموں کا جس دن انتقال ہوا ہے یعنی 30 مارچ کو تو ان کی اہلیہ کی  عدت بھی اسی دن سے شروع ہو جائے گی جو کہ چار ماہ دس دن ہے۔

2۔ عدت سے متعلق حکم یہ ہے کہ عورت اسی جگہ عدت گزارے  جس جگہ زندگی میں شوہر کے ساتھ رہا کرتی تھی ،  لیکن اگر وہاں سے سفر کر کے کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہو تو اسی جگہ عدت گزار لینی  چاہیے، تاہم منتقلی کے بعد بھی   عورت پر دوسرے گھر میں عدت کی وہی پابندیاں  لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ بیوہ  چوں کہ گاؤں جا چکی ہے تو اگر ممکن ہو تو وہی پر عدت گزار لے اور اگر گاؤں میں عدت گزارنا ممکن نہ ہو  مثلا گاؤں میں کوئی محرم یا گھر وغیرہ موجود نہیں ہے تو وہ   عذر کی وجہ سے بیٹے کے ساتھ کراچی منتقل ہو سکتی ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 510):

(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

و في الرد:

"(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول و الخوف شديد و إلا فلا".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 205):

"وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.

كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں