بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران بیٹے کے گھر جانا


سوال

ایک ضعیف العمر خاتون ہیں جن کی عمر پچھتر سال ہے، ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے، اور وہ عدت میں ہیں، شوہر کے گھر میں کوئی محرم رشتہ دار ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے، آئے روز وہاں بجلی کی خرابی اور طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر کیا وہ اپنے بیٹے کے گھر منتقل ہو سکتی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق کی عدت ہو یا وفات کی عدت  بہرصورت عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی عدت اپنے شوہر ہی کے گھر پر گزارے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت اپنے شوہر کے گھر پر ہی گزارے، لیکن  اگر اس  کی دیکھ بھال  کے لیے واقعتاً کوئی محرم موجود نہیں ہے اور اس کی دیکھ  بال کی کوئی اور صورت بھی  ممکن نہ ہو  مثلاً  کوئی خادمہ وغیرہ میسر آجائے جو کہ دورانِ عدت اس خاتون کی خدمت کر سکے تو اس صورت میں بیٹا اپنی والدہ کو اپنے گھر منتقل کر سکتا ہے اور یہ  باقی عدت وہاں مکمل کرے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق و موت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

و في الرد:

"(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول و الخوف شديد و إلا فلا". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں