بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارے کے مقررہ وقت سے پہلے چھٹی کرنے کا حکم


سوال

میں ایک کالج میں لیکچرار ہوں، ہمارے ہاں کالج میں کلاسز کا آغاز صبح 9 بجے سے ہوتا ہے اور تقریباً 1:30 پر ختم ہوتا ہے، کالج کے اساتذہ تو صبح 9 بجے سے پہلے حاضر ہوتے ہیں، لیکن پھر ہر ایک اپنے اپنے اسباق پڑھا کر واپس جاتے ہیں، کوئی 12 بجے تو کوئی 12:30 پر وغیرہ وغیرہ، یاد رہے کہ اپنی کلاس (سبق) چھوڑ کے کوئی نہیں جاتا اور جب کبھی پرنسپل کی طرف سے کسی کام یا میٹنگ کے لیے کہا جاتا ہے، تب بھی کلاس چھوڑ کر کالج سے کوئی نہیں جاتا۔

1- پوچھنا یہ ہے کہ اساتذہ کا اس طرح 2 بجے سے پہلے کالج سے جانا شرعاً جائز ہے، جب کہ کالج میں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ بھی بظاہرنہیں ہے؟

2- حکومت کی طرف سے کالج کا ٹائم صبح 8 سے 2 بجے تک یعنی کل چھ گھنٹے ہے، جب کہ کالج انتظامیہ موسم کے مطابق صبح کلاسز کے آغاز میں تبدیلی کرتی ہے اور 9 بجے کلاسز شروع ہوتی ہیں، کیا ایسی صورت میں اساتذہ کے لیے 8 بجے پہنچنا لازم ہے یا 9 بجے آنا کافی ہے، جب کہ پرنسپل یا منیٹرنگ ٹیم کی طرف سے 9 بجے سے پہلے نہ آنے پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا؟

جواب

1- واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے اوقات میں حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس غیر حاضری کے بقدر وہ تنخواہ  کا مستحق نہیں ہوتا، البتہ اگر ادارے والوں کے ساتھ ملازمین کا یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ میں اتنے اسباق پڑھاکر جاؤں گا تو پھر مقرر کردہ اسباق پڑھانا لازم ہے، پورے وقت حاضر رہنا ضروری نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ کالج کے اساتذہ کے ساتھ حکومت کا یہ معاہدہ ہوا ہے کہ وہ مقررہ  گھنٹے / اسباق پڑھائیں گے، کالج کے پورے وقت میں حاضر ہونا ضروری  نہیں تو ان کا صرف اپنے گھنٹے / اسباق پڑھا کر چلے جانا جائز ہےاور اگر یہ معاہدہ نہیں ہوتاتو ایسی صورت میں چھٹی کے مقررہ وقت سے پہلے چھٹی کرکے کالج سے چلے جانا جائز نہیں ہے، اگرچہ کالج میں ٹھہرنے کا کوئی بھی فائدہ نہ ہو۔

2- کالج انتظامیہ کی طرف سے موسم کے مطابق اگر وقت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور انہیں حکومت کی طرف سے وقت کی تبدیلی کا اختیار بھی ملا ہوا ہو تو ایسی صورت میں کالج انتظامیہ کی طرف سے مقرر کردہ وقت میں اساتذہ کا کالج پہنچنا کافی ہے، اس سے پہلے آنا لازم نہیں ہے اور اگر یہ اختیار نہیں ہوتا تو پھر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ وقت میں اساتذہ کا کالج پہنچنا اور اسی کے مطابق چھٹی کرنا لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الأجير ‌الخاص فهناك وإن وقع عمله إفسادا حقيقة، إلا أن عمله يلتحق بالعدم شرعا؛ لأنه لا يستحق الأجرة بعمله، بل بتسليم نفسه إليه في المدة فكأنه لم يعمل."

(ج:4، ص:211، كتاب الإجارة، فصل في حكم الإجارة، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل، كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى."

(ج:6، ص:69، كتاب الإجارة، مبحث الأجير الخاص، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں