بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Econex کمپنی سے کمائی کرنے کا حکم


سوال

 ایک کمپنی ہے جس کا نام Econex ہے ،یہ اس طرح کام کرتی ہے کہ بندے کو سب سے پہلے کوئی پیکج لگانا ہوگا مثلاً 3000 والا یا 7000 والا،اس طرح کے مختلف پیکجزہیں، اس کے لگانے کے بعد بندے کو اور لوگ جوائن کراونے ہوں گے اور اس جوائن کروانے  پر بندے کو کمیشن ملتا ہے،اسی طرح جب آپ کے جوائن کردہ بندے اور لوگوں کو  جوائن کرواتے ہیں تو اس پر بھی بندے کو کمیشن ملتا ہے ،اسی طرح جب آپ اور آپ کے جوائن کردہ لوگ اور لوگوں کو جوائن کرواتے کرواتے بہت زیادہ ہوجائیں، تو بس پھر آپ گھر میں بیٹھ کر آرام کرو، آپ کو پیسے ملیں گے بغیر کسی محنت کے ،بس محنت شروع میں ہوتی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو جوائن کروانا ہوتاہے، تو کیا یہ کام کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں بلا  محنت  کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے،  لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح    کسی   سائٹ کی پبلسٹی کرناکہ  جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ  اس نے  بعد والوں  کی خریداری میں  کوئی عمل نہیں کیا ، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی ،  بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہےاور اسی طرح کسی کمپنی کا صرف کمیشن ہی کاکام کرنا کہ ایک شخص دوسرے کو اس کمپنی میں رقم شامل کرنے پرتیار کرلے اور جب وہ شخص رقم شامل کردے تو اس رقم سے پہلے شخص اور اسی طرح دیگر کو اس میں سے کمیشن دے دیاجائے اور ہر رقم شامل ہونے کے بعد اس کو پہلے والوں میں تقسیم کردیاجائے تواس طرح کام کرنا شرعاً درست نہیں ہوگا۔

حاصل یہ ہے کہ   کسٹمر کو لانے والے شخص کا اس پہلے کسٹمر کے لانے پر  کمیشن کا لین دین تو جائز ہے، لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے کسٹمر کا کمیشن بھی پہلے والے  شخص کو ملتا رہے یہ شرعاً جائز نہیں ہے،لہذا مذکورہ کمپنی میں رقم انویسٹ کرنا اور کسٹمرز کو رقم شامل کرنے کے لیے تیار کرنا اور اس پر پرافٹ لینا شرعاً جائز نہیں۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)

ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"

علامہ طیبی رحمہ اللہ نے  شرح مشکوۃ میں مبرور کایہ  معنی بیان کیا ہے:

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع،باب الكسب و طلب الحلال،2112/7،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة )

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،63/6،ط: سعيد)

وفيه أيضا:

" قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."

(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،47/6،ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں