بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکونیکس کمپنی کی کمائی کا حکم


سوال

اگر ہمیں معلوم ہو گیا کے ایکو نیکس (econex) حرام ہے اب ہم نے اگر وہ پیسے استعمال کر لیے ہوں تو اب کیا کریں؟اگر ہم نے وہ پیسہ استعمال نہیں کیا ہمارے کھاتے میں وہ پیسے ہیں تو اس کا کیا کریں۔

جواب

واضح رہے کہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اس کمپنی میں کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ بندے کو سب سے پہلے کوئی پیکج لگانا ہوگا  مثلاً  3000  والا  یا  7000 والا،اس طرح کے مختلف پیکجزہیں، اس کے لگانے کے بعد بندے کو اور لوگ جوائن کراونے ہوں گے اور اس جوائن کروانے  پر بندے کو کمیشن ملتا ہے،اسی طرح جب آپ کے جوائن کردہ بندے اور لوگوں کو  جوائن کرواتے ہیں تو اس پر بھی بندے کو کمیشن ملتا ہے ،اسی طرح جب آپ اور آپ کے جوائن کردہ لوگ اور لوگوں کو  جوائن کرواتے کرواتے بہت زیادہ ہوجائیں، تو  بس پھر  بلامحنت بھی  آپ کو پیسے ملیں گے، بس محنت شروع میں ہوتی ہے  اور  وہ  یہ کہ لوگوں کو جوائن کروانا ہوتاہے۔

مذکورہ طریقہ پر کاروبار کرنے کو ملٹی لیول مارکیٹنگ کہا جاتا ہے، اور کاروبار کی یہ صورت شرعاً جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس کاروبار میں آدمی اپنی محنت کے بغیر کمیشن وصول کرتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب پہلا ممبر دوسرے ممبر کو کمپنی سے منسلک کرواتا ہےاور اس کے عوض کمیشن وصول کرتا ہے تو یہاں تو  اس کا عمل پایا گیا، لیکن جب دوسرا ممبر تیسرے ممبر کو اور تیسرا ممبر چوتھے ممبر کو کمپنی سے منسلک کرواتا ہے تو اس صورتوں میں بھی پہلے ممبر کو کمیشن دیا جاتا ہے، حالاں کہ اس میں پہلے ممبر کا کوئی عمل نہیں پایا گیا،اس وجہ سے اس کاروبار میں سرمایہ لگانا اور نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہےاور اگر کسی نے نفع حاصل کرلیا ہے تو اس کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہےاور اگر رقم استعمال کرلی ہے تو اتنی رقم صدقہ کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام." 

(کتاب الاجارۃ , باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد 6 ص: 63 ط: دارالفکر)

وفیہ ایضا:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع , باب البیع الفاسد جلد 5 ص: 99 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409101179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں