" ای -بی- ایل" کے نام سے ایک پاکستانی کمپنی ہے جو حکومت پاکستان کے ادارے ایف بی آر سے رجسٹرڈ ہے۔ یہ کمپنی نور پور پاکپتن ساہیوال میں واقع ہے، 2016 میں وجود میں آئی اور کام کرتے ہوئے اس کو تقریبا 8 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ کمپنی میں کام کرنے اور اس سے کمائی کا طریقہ درج ذیل ہے:
1۔ کمپنی میں رجسٹر ہونے کے لیے رجسٹریشن فیس 850 روپے ہیں۔
2 - کام کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے ساتھ دو بندوں کو جوائن کرنا ہوتا ہے اور پھر ہر بندہ مزید دولوگوں کو جوائن کرتا ہے، اسی طرح کمائی شروع ہونے لگتی ہے۔
3 ٹیم میں جتنے نئے بندے شامل ہوتے ہیں ، اس سے اوپر تمام ممبر ان کو فی کس 100 روپے ملتے ہیں۔
4۔ ٹیم کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے ٹیم ممبران کو ٹریننگ دیتا ہے اور فیس بک اور وٹس ایپ پر لوگوں کو اس بارے آگاہ کرتا ہے۔ جو جوائن کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے کمپنی سے 850 روپے کے عوض ای۔ پن۔ ٹوکن (یعنی اکاؤنٹ بنانے کے لیے ایک مخصوص پاسورڈ) لیتا ہے۔
5۔ اوسطا ایک ٹیم لیڈر ماہانہ کی بنیاد پر 17 ہزار سے لے کر 34 ہزار تک کے ٹوکن کمپنی سے ایڈوانس میں خریدتا ہے اور جب بھی کوئی بندہ جوائن کرنے کے لیے آتا ہے، تو اس کو ٹوکن دیا جاتا ہے اور اس سے 850 روپے لیے جاتے ہیں۔
6۔ اس میں کسی قسم کا سود نہیں ہے۔
7۔ پیسے تب ملتے ہیں جب دو بندے (دائیں اور بائیں طرف ) مکمل ہوتے ہیں۔
سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کی رُو سے " ای -بی- ایل" (EBL) نامی کمپنی میں رجسٹریشن کروا نے کے بعد دوسرے لوگوں کو ممبر بنوانے کے عوض چین در چین کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہے، جس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں :
1) کمپنی کی طرف سے شروع میں رجسٹریشن کے نام سے مخصوص رقم (850 روپے) لی جاتی ہے، جب کہ دیگر لوگوں کو کمپنی میں جوائن کرواکر اس پر کمیشن لینے والے شخص کی حیثیت اجیرِ مشترک کی ہے،اورمذکورہ معاملہ عقدِاجارہ کےزمرہ میں آتاہے،اوراجارہ میں کوئی ایسی شرط لگاناکہ جو عقد کے تقاضہ کے خلاف ہو اجارے کوفاسدکردیتی ہے؛لہذا " ای -بی- ایل" (EBL) نامی کمپنی میں دیگر لوگوں کو جوائن کرواکر اس پر کمیشن (اجرت) حاصل کرنے والے کو مخصوص رقم بطور رجسٹریشن فیس جمع کروانے کا پابند کرنا ایسی شرط ہےجوکہ عقدکےمقتضیات میں سےنہیں ہے؛لہذاشرطِ فاسدپرمبنی ہونےکی وجہ سےمذکورہ معاملہ جائزنہیں۔
نیز واضح رہے کہ شریعت میں بلا محنت کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا گیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔
لہذا جس معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، یعنی جس ممبر کو خود تیار کر کے کمپنی میں شامل کروایا ہو اس کا کمیشن لینا تو جائز ہوگا، لیکن آپ کے شامل کروائے گئے ممبروں نے جن ممبروں کو کمپنی کا ممبر بنایا ان ممبروں کا چین در چین کمیشن وصول کرنا آپ کے لیے جائز نہیں ہے،کیوں کہ بعد والے ممبروں کو کمپنی میں شامل کروانے میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی براہِ راست اور خاص محنت شامل نہیں ہوتی، بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا ہے جو استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔
حاصل یہ ہے کہ ممبر کو لانے والے شخص کا اس پہلے ممبر کے لانے پر کمیشن کا لین دین تو جائز ہے، لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے ممبر کا کمیشن بھی بالائی(اوپر) والے شخص کو ملتا رہے یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ لہٰذا چوں کہ " ای -بی- ایل" (EBL) نامی کمپنی میں یہ بنیادی خرابی (چین در چین کمیشن کی وصولی) ہے، اس لیے اس کمپنی کا ممبر بننا اور چین در چین کمیشن وصول کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ پہلی بار ممبر بنانے میں بھی ایک ناجائز عقد کرنا پڑتا ہے اس لیے براہِ راست بنوائے گئے ممبروں کا کمیشن وصول کرنا بھی ناجائز ہے۔
مسند أحمد میں ہے:
"عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة".
(مسند الامام احمد، رقم الحديث:3783، 30/4، القاهرة)
المعجم الاوسط للطبرانی میں ہے:
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تحل صفقتان في صفقة»."
(باب الالف، 2/ 169، ط:دار الحرمين)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الذي يرجع إلى ركن العقد فخلوه عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه حتى لو أجره داره على أن يسكنها شهرا ثم يسلمها إلى المستأجر أو أرضا على أن يزرعها ثم يسلمها إلى المستأجر أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه شهرا ثم يسلمه إلى المستأجر فالإجارة فاسدة لأن هذا شرط لا يقتضيه العقد وأنه شرط لا يلائم العقد، وزيادة منفعة مشروطة في العقد لا يقابلها عوض في معاوضة المال بالمال،يكون ربا أو فيها شبهة الربا وكل ذلك مفسد للعقد."
(كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة،4/ 195،ط:دارالكتب العلمية)
شعب الایمان میں ہے:
"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."
(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)
ترجمہ:"آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی کا خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"
علامہ طیبی رحمہ اللہ نے شرح مشکوۃ میں مبرور کایہ معنی بیان کیا ہے:
" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."
(كتاب البيوع، باب الكسب و طلب الحلال، 2112/7، ط:مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة )
فتاویٰ شامی میں ہے:
" قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز؛ لما كان للناس به حاجة، ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل، وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل، فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي."
(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،47/6، ط:سعيد)
وفیہ ایضا:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(کتاب الإجارة، باب الإجارۃ الفاسدة،6/ 63، ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض).
(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء."
(کتاب الإجارۃ، ج:4/ 6، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101074
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن