بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

EBL کے ذریعہ کمائی کا حکم


سوال

مفتی صاحب ای بی ایل(EBL) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

EBL (ای بی ایل) پاکستان کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق  ” ای بی ایل پاکستان“ ایک نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی ہے،  اس  کے  بنیادی پلان(Basic plan)    میں شامل ہونے کے لیے ابتداء میں 750 روپے  جمع کرانے ہوتے ہیں، جسے یہ سرمایہ کاری کہتے ہیں، اور   Silver پلان میں شامل ہونے کے لیے 3500 روپے اور   Gold پلان میں شامل ہونے کے لیے 7000 روپے دینے ہوتے ہیں،  اس کمپنی میں شامل ہونے کے بعد مزید دو افراد کو شامل کرنا پڑتا ہے اور پھر ان دولوگوں کو تیار کرنا ہوتا ہے،وہ مزید دو افراد کو تیار کریں، یوں یہ چین در چین  سلسلہ چلتا ہے، اس طرح لوگوں کو شامل کرانے پر   رقم ملتی ہے، اور  آگے سب شامل ہونے والوں کا کمیشن پہلے والے شخص کو بھی ملتا رہتا ہےاور بعد ازاں  مختلف انعامات بھی ملتے ہیں۔

 اس  کمپنی   کا ممبر بننا اور اس کے ذریعہ سے کمائی کرنا درج ذیل وجوہات کی بناء پر شرعا جائز نہیں ہے :

1:کمپنی کا بنیادی مقصد ممبر سازی ہے، خرید وفروخت مقصود نہیں ہے۔ اور   شرعاً  اس کی حیثیت کاروبار  کی نہیں ہے، لہذا ممبر سازی  اور کمیشن کو مستقل کاروبار کی حیثیت دے کر اس پر نفع کمانا جائز نہیں ہے۔

 شریعت میں بلا  محنت  کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے،  لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اور وہ کام بھی جائز ہو تو  اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس طرح    کسی   سائٹ کی پبلسٹی کرنا کہ  جس میں مرحلہ وارکمیشن ملتا رہے، جب کہ  اس نے  بعد والوں  کی خریداری یا ان کو شامل کرانے  میں  کوئی عمل نہیں کیا ، اور اس میں بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہیں ہوتی ،  بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہوتا ہے اور یہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔

2: اس میں چین در چین کمیشن کا سلسلہ ہے، اور بعد والے تمام لوگوں کے کمپنی میں شامل ہونے پر  پہلے والے شخص کو کمیشن ملتا رہتا ہے، اور جس کمپنی میں یہ خرابیاں ہوں، اس کا ممبر بننا  جائز نہیں ہے۔

3: اس میں سرمایہ کاری کے عنوان سے جو رقم لی جاتی ہے ، تو چوں کہ یہ معاملہ شرعی اصولوں کے مطابق نہ  شرکت کا ہے  اور نہ مضاربت کا،  لہذاکمپنی میں رجسٹرد ہونے کے لیے جو ابتداء میں رقم لی جاتی ہے ، وہ  بھی ناجائز ہے۔

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."

(التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء، 2/84، ط:دار الكتب العلمية)

شرح المشكاة للطيبی میں ہے:

"قوله: (مبرور) أي ‌مقبول ‌في ‌الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال،7/ 2112، مكتبة نزار مصطفى الباز)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

( کتاب الإجارہ، باب الإجارۃ الفاسدہ، مطلب فی أجرۃ الدلال،6/ 63،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں