بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

پاکستانی کمپنی EBL میں کام کرنے کا حکم


سوال

ایک کمپنی ہے جس کانام EBL Pakistan (ایزی بزنس لائف پاکستان) ہے،اس کمپنی کا آغاز  2016 میں ہوا، اس کا مرکزی دفتر ساہیوال (پاکپتن) میں ہے، یہ کمپنی FBR میں بھی رجسٹرڈ ہے،   اس کمپنی میں کام کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے جوائن کرنا ہوگا، جوائن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے رجسٹریشن فیس 850 دینی ہوگی، اس سے رجسٹریشن ہوجائے گی۔ اس کمپنی میں کام یہ کرنا ہے کہ اس میں مزید لوگوں کو شامل کروانا ہے، کمپنی ایک ٹوکن دیتی ہے، ہ ٹوکن 2 لوگوں کو فروخت کرنا ہوگا، اس کے بعد جب آپ کے فروخت کرنے سے دولوگ کمپنی جوائن کریں گےتو آپ کو 300 روپے ملیں گے، فی بندہ 150 روپے، ایک بندہ کے جوائن کرنے سے   150 نہیں ملیں گے، بلکہ ضابطہ یہ ہے کہ دو بندوں کو جوائن کرانے کے بعد اکٹھے 300 روپے ملتے ہیں، اس کے بعد کمپنی ان کو بھی ٹوکن دے گی، وہ مزید دو بندوں کو شامل کرے گی ان کو بھی یہی نفع ملے گا،  پھر وہ دو جن کو شامل کریں گے، ان کے شامل کرنے کی وجہ سے بھی ہمیں نفع ملے گا، اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ 

الغرض یہی کمپنی کا کام ہے کہ ٹوکن خریدنا ہے، 2 بندوں کو فروخت کرنا ہے، ان کے شامل ہونے کے بعد اگلا ٹوکن مزید 2 بندوں کو فروخت کرنا ہے، اسی طرح کرتے رہنا ہے اور کمپنی سے کمیشن وصول کرنا ہے۔کمپنی اس وجہ سے کمیشن دیتی ہے کہ یہ بندہ کمپنی کے ممبران میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور کمپنی کے اشتہارات چلا کر اس کی ترویج کا ذریعہ بنتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کمپنی کے ساتھ منسلک ہونا اور اس کو کمائی کا ذریعہ بنانا درست ہے؟

جواب

سوال میں ذکرکردہ صورت اور طریقہ کے مطابق ای بی ایل پاکستان کے ساتھ منسلک ہونا اور ان کا ممبر بن کر ان سے کمیشن وصول کرنا شرعاً ناجائز ہے، ناجائز ہونے کی متعدد وجوہات ہیں:

1۔ کمپنی کا اصل مقصد ممبر سازی ہے، کاروبار اور خرید و فروخت نہیں کیا جاتا، لہذا ممبر سازی  اور کمیشن کو مستقل کاروبار کی حیثیت دے کر اس پر نفع کمانا جائز نہیں ہے۔

2۔ ابتداء میں جو 850 روپے دیے جارہے ہیں ، یہ نہ مضاربت ہے اور نہ ہی شرکت،بلکہ یہ صرف مارکیٹنگ کی اجازت لینے کا عقد کیا جاتاہے، اس عقد کی تکمیل کے لیے یہ رقم لی جاتی ہےجو کہ بالکل ناجائز ہے۔

3۔  ہر نئے آنے والے ممبر کے کمیشن کو کم از کم دو ممبر لانے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، اگر کوئی ایک ممبر لائے گا تو اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ یہ شرعا درست نہیں۔

4۔ کسی بھی کام میں کمیشن وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے، لیکن لوگوں کی ضرورت اور  تعامل کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض صورتوں میں کمیشن کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔

ان سب کے ساتھ ایک اہم خرابی یہ ہے کہ اس کمپنی کے ساتھ منسلک ہونے سے جو نفع مل رہا ہے اس میں انسان کی محنت کا کوئی دخل نہیں؛ کیوں کہ  کسٹمر کو لانے والے شخص کا اس پہلے کسٹمر کو لا کر کمپنی جوائن کروانے  پر  کمیشن کا لین دین تو جائز ہے،  لیکن اس کے بعد چین در چین یہ سلسلہ چلنا کہ ہر بعد والے کسٹمر کا کمیشن بھی پہلے والے  شخص کو ملتا رہے،   جب کہ  اس نے  بعد والوں  کی خریداری یا ان کو شامل کرانے  میں  کوئی عمل نہیں کیا،یہ جائز نہیں ہے، لہذا مذکورہ کمپنی  EBL میں رقم انویسٹ کرنا اور کسٹمرز کوکمپنی میں  رقم شامل کرنے کے لیے تیار کرنا اور اس پر پرافٹ / کمیشن  لینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

مستدرک حاکم میں ہے:

"عن عباية بن رافع بن خديج، عن أبيه قال: قيل: يا رسول الله، ‌أي ‌الكسب ‌أطيب؟ قال: «كسب الرجل بيده، وكل بيع مبرور".

(کتاب البیوع، 13/2، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمہ:"حضرت رافع بن خدیج اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"یا أیها الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل۔۔۔والمراد بالباطل ما يخالف الشرع كالربا والقمار والبخس والظلم- قاله السدي- وهو المروي عن الباقر رضي الله تعالى عنه،وعن الحسن هو ما كان بغير استحقاق من طريق الأعواض."

(سورۃ النساء، الآیة: 29، 16/3،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 63/5، ط: دار الفکر)

و فیہ ایضاً:

"قوله ( لأنه يصير قمارا ) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه، وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، 403/6، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603102367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں